يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ تجھ سے فتویٰ مانگتے ہیں، کہہ دے اللہ تمھیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے، اگر کوئی آدمی مر جائے، جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لیے اس کا نصف ہے جو اس نے چھوڑا اور وہ (خود) اس (بہن) کا وارث ہوگا، اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر وہ دو (بہنیں) ہوں تو ان کے لیے اس میں سے دو تہائی ہوگا جو اس نے چھوڑا اور اگر وہ کئی بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہوگا۔ اللہ تمھارے لیے کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
عصبہ اور کلالہ کی وضاحت! مسائل وراثت سیدنا براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورتوں میں سب سے آخری سورت سورۃ برأت اتری ہے اور آیتوں میں سب سے آخری آیت «یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ» (4-النساء:176) اتری ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4605) سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { میں بیماری کے سبب بیہوش پڑا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے ، آپ نے وضو کیا اور وہی پانی مجھ پر ڈالا ، جس سے مجھے افاقہ ہوا اور میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وارثوں کے لحاظ سے میں کلالہ ہوں ، میری میراث کیسے بٹے گی ؟ } اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت فرائض نازل فرمائی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6723) اور روایت میں بھی اسی آیت کا اترنا آیا ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1616) پس اللہ فرماتا ہے کہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں یعنی کلالہ کے بارے میں ۔ پہلے یہ بیان گذر چکا ہے کہ لفظ کلالہ اکیل سے ماخوذ ہے جو کہ سر کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتا ہے ۔ اکثر علماء نے کہا ہے کہ کلالہ وہ ہے جس میت کے لڑکے پوتے نہ ہوں اور بعض کا قول یہ بھی ہے کہ جس کے لڑکے نہ ہوں ، جیسے کہا آیت میں ہے آیت «لَیْسَ لَہُ وَلَدٌ وَلَہُ» سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے جو مشکل مسائل آئے تھے ، ان میں ایک یہ مسئلہ بھی تھا ۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا { تین چیزوں کی نسبت میری تمنا رہ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ہماری طرف کوئی ایسا عہد کرتے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کرتے دادا کی میراث ، کلالہ اور سود کے ابواب ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3032) اور روایت میں ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ { کلالہ کے بارے میں میں نے جس قدر سوالات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے ، اتنے کسی اور مسئلہ میں نہیں کئے یہاں تک کہ آپ نے اپنی انگلی سے میرے سینے میں کچوکا لگا کر فرمایا کہ تجھے گرمیوں کی وہ آیت کافی ہے ، جو سورۃ نساء کے آخر میں ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1617) اور حدیث میں ہے { اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید اطمینان کر لیا ہوتا تو وہ میرے لیے سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر تھا } ۔۱؎ (مسند احمد:38/1:منقطع و ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیت موسم گرما میں نازل ہوئی ہو گی «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سمجھنے کی طرف رہنمائی کی تھی اور اسی کو مسئلہ کا کافی حل بتایا تھا ، لہٰذا سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس کے معنی پوچھنے بھول گئے ، جس پر اظہار افسوس کر رہے ہیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ { سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے حضور سے کلالہ کے بارے میں سوال کیا پس فرمایا ”کیا اللہ نے اسے بیان نہیں فرمایا ۔ } پس یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10870:منقطع و ضعیف) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے خطبے میں فرماتے ہیں جو آیت سورۃ نساء کے شروع میں فرائض کے بارے میں ہے ، وہ ولد و والد کے لیے ہے اور دوسری آیت میاں بیوی کے لیے ہے اور ماں زاد بہنوں کے لیے اور جس آیت سے سورۃ نساء کو ختم کیا ہے وہ سگے بہن بھائیوں کے بارے میں ہے جو رحمی رشتہ عصبہ میں شمار ہوتا ہے [ ابن جریر ] اس آیت کے معنی «ہَلَکَ» کے معنی ہیں مر گیا ، جیسے فرمان ہے«کُلٰ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ» (28-القصص:88) ’ یعنی ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے ذات الٰہی کے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔ ‘ جیسے اور آیت میں فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ» ۱؎ (55-الرحمن:26-27) ’ یعنی ہر ایک جو اس پر ہے فانی یہ اور تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہے گا جو جلال و اکرام والا ہے ۔‘ پھر فرمایا اس کا ولد نہ ہو ، اس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ کلالہ کی شرط میں باپ کا نہ ہونا نہیں بلکہ جس کی اولاد نہ ہو وہ کلالہ ہے ، بروایت ابن جریر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے لیکن صحیح قول جمہور کا ہے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کا نہ ولد ہو ، نہ والد اور اس کی دلیل آیت میں اس کے بعد کے الفاظ سے بھی ثابت ہوتی ہے جو فرمایا آیت «وَّلَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ» (4-النساء:176) ’ یعنی اس کی بہن ہو تو اس کے لیے کل چھوڑے ہوئے ، مال کا آدھوں آدھ ہے ۔ ‘ اور اگر بہن باپ کے ساتھ ہو تو باپ اسے ورثہ پانے سے روک دیتا ہے اور اسے کچھ بھی اجماعاً نہیں ملتا ، پس ثابت ہوا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد نہ ہو جو نص سے ثابت ہے اور باپ بھی نہ ہو یہ بھی نص سے ثابت ہوتا ہے لیکن قدرے غور کے بعد ، اس لیے کہ بہن کا نصف حصہ باپ کی موجودگی میں ہوتا ہی نہیں بلکہ وہ ورثے سے محروم ہوتی ہے ۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا جاتا ہے کہ { ایک عورت مر گئی ہے اس کا خاوند ہے اور ایک سگی بہن ہے تو آپ نے فرمایا آدھا بہن کو دے دو اور آدھا خاوند کو جب آپ سے اس کی دلیل پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا میری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی صورت میں یہی فیصلہ صادر فرمایا تھا } ۱؎ (مسند احمد:188/5:ضعیف) سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے ابن جریر میں منقول ہے کہ ان دونوں کا فتویٰ اس میت کے بارے میں جو ایک لڑکی اور ایک بہن چھوڑ جائے ، یہ تھا کہ اس صورت میں بہن محروم رہے گی ، اسے کچھ بھی نہ ملے گا ، اسی لیے کہ قرآن کی اس آیت میں بہن کو آدھا ملنے کی صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ میت کی اولاد نہ ہو اور یہاں اولاد ہے ۔ لیکن جمہور ان کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی آدھا لڑکی کو ملے گا اور بہ سبب فرض اور عصبہ آدھا بہن کو بھی ملے گا ۔ ابراہیم اسود کہتے ہیں ہم میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فیصلہ کیا کہ آدھا لڑکی کا اور آدھا بہن کا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6741) صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لڑکی اور پوتی اور بہن کے بارے میں فتویٰ دیا کہ آدھا لڑکی کو اور آدھا بہن کو پھر فرمایا ذرا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بھی ہو آؤ وہ بھی میری موافقت ہی کریں گے ۔ لیکن جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا فیصلہ بھی انہیں سنایا گیا تو آپ نے فرمایا ان سے اتفاق کی صورت میں گمراہ ہو جاؤں گا اور راہ یافتہ لوگوں میں میرا شمار نہیں رہے گا ، سنو میں اس بارے میں وہ فیصلہ کرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے آدھا تو بیٹی کو اور چھٹا حصہ پوتی کو تو دو ثلث پورے ہو گئے اور جو باقی بچا وہ بہن کو ۔ ہم پھر واپس آئے اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر دی تو آپ نے فرمایا جب تک یہ علامہ تم میں موجود ہیں ، مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو ۔۱؎ (صحیح بخاری:6736) پھر فرمان ہے کہ یہ اس کا وارث ہو گا اگر اس کی اولاد نہ ہو ، یعنی بھائی اپنی بہن کے کل مال کا وارث ہے جبکہ وہ کلالہ مرے یعنی اس کی اولاد اور باپ نہ ہو ، اس لیے کہ باپ کی موجودگی میں تو بھائی کو ورثے میں سے کچھ بھی نہ ملے گا ۔ ہاں اگر بھائی کے ساتھ ہی اور کوئی مقررہ حصے والا اور وارث ہو جیسے خاوند یا ماں جایا بھائی تو اسے اس کا حصہ دے دیا جائے گا اور باقی کا وارث بھائی ہو گا ۔ صحیح بخاری میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں فرائض کو ان کے اہل سے ملا دو ، پھر جو باقی بچے وہ اس مرد کا ہے جو سب سے زیادہ قریب ہو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6732) پھر فرماتا ہے اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں مال متروکہ کے دو ثلث ملیں گے ۔ یہی حکم دو سے زیادہ بہنوں کا بھی ہے ، یہیں سے ایک جماعت نے دو بیٹیوں کا حکم لیا ہے ۔ جیسے کہ دو سے زیادہ بہنوں کا حکم لڑکیوں کے حکم سے لیا ہے جس آیت کے الفاظ یہ ہیں آیت «فَاِنْ کُنَّ نِسَاۗءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ» ۱؎ (4-النساء:11) ۱؎ پھر فرماتا ہے اگر بہن بھائی دونوں ہوں تو ہر مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے ، یہی حکم عصبات کا ہے خواہ لڑکے ہوں یا پوتے ہوں یا بھائی ہوں ، جب کہ ان میں مرد و عورت دونوں موجود ہوں ۔ تو جتنا دو عورتوں کو ملے گا اتنا ایک مرد کو ۔ اللہ اپنے فرائض بیان فرما رہا ہے ، اپنی حدیں مقرر کر رہا ہے ، اپنی شریعت واضح کر رہا ہے ۔ تاکہ تم بہک نہ جاؤ ۔ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کے انجام سے واقف اور ہر مصلحت سے دانا ، بندوں کی بھلائی برائی کا جاننے والا ، مستحق کے استحقاق کو پہچاننے والا ہے ۔ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کہیں سفر میں جا رہے تھے ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی اونٹنی کا سر رسول اللہ کے پیچھے بیٹھے ہوئے صحابی کے کجاوے کے پاس تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی سواری کا سر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی سواری کے دوسرے سوار کے پاس تھا جو یہ آیت اتری ۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو سنائی اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ۔ اس کے بعد پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب اس کے بارے میں سوال کیا تو کہا واللہ تم بے سمجھ ہو ، اس لیے کہ جیسے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنائی ویسے ہی میں نے آپ کو سنا دی ، واللہ میں تو اس پر کوئی زیادتی نہیں کر سکتا ۔ } پس سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے الٰہی اگرچہ تو نے ظاہر کر دیا ہو مگر مجھ پر تو کھلا نہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10878:منقطع) لیکن یہ روایت منقطع ہے اسی روایت کی اور سند میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ یہ سوال اپنی خلافت کے زمانے میں کیا تھا ۱؎ (مسند بزار:2206) اور حدیث میں ہے کہ { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ کلالہ کا ورثہ کس طرح تقسیم ہو گا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لیکن چونکہ کی پوری تشفی نہ ہوئی تھی ، اس لیے اپنی صاحبزادی زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوشی میں ہوں تو تم پوچھ لینا ۔ } چنانچہ حفصہ نے ایک روز ایسا ہی موقعہ پا کر دریافت کیا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تیرے باپ نے تجھے اس کے پوچھنے کی ہدایت کی ہے میرا خیال ہے کہ وہ اسے معلوم نہ کر سکیں گے ۔ } سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو فرمانے لگے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما دیا تو بس میں اب اسے جان ہی نہیں سکتا ۔ ۱؎ } [ مرسل ] اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر جب حفصہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا تو { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنگھے پر یہ آیت لکھوائی ، پھر فرمایا کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تم سے اس کے پوچھنے کو کہا تھا ؟ میرا خیال ہے کہ وہ اسے ٹھیک ٹھاک نہ کر سکیں گے ۔ کیا انہیں گرمی کی وہ آیت جو سورۃ نساء میں ہے کافی نہیں ؟ وہ آیت «وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یٰوْرَثُ کَلٰلَۃً» ۱؎ (4-النساء:12) ہے ۔ } پھر جب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو وہ آیت اتری جو سورۃ نساء کے خاتمہ پر ہے اور کنگھی پھینک دی ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرتبہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے کنگھے کے ایک ٹکڑے کو لے کر فرمایا میں کلالہ کے بارے میں آج ایسا فیصلہ کر دونگا کہ پردہ نشین عورتوں تک کو معلوم رہے ۔ اسی وقت گھر میں سے ایک سانپ نکل آیا اور سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے ، پس آپ نے فرمایا اگر اللہ عزوجل کا ارادہ اس کام کو پورا کرنے کا ہوتا تو اسے پورا کر لینے دیتا ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:10886:موقوف) اس کی اسناد صحیح ہے ۔ مستدرک حاکم میں ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کاش میں تین مسئلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتا تو مجھے سرخ اونٹوں کے لینے سے بھی زیادہ محبوب ہوتا ۔ ایک تو یہ کہ آپ کے بعد خلیفہ کون ہو گا ؟ دوسرے یہ کہ جو لوگ زکوٰۃ کے ایک تو قائل ہوں لیکن کہیں کہ ہم تجھے ادا نہیں کریں گے ان سے لڑنا حلال ہے یا نہیں ؟ تیسرے کلالہ کے بارے میں ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:303/2:ضعیف و منقطع) ایک اور حدیث میں بجائے زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے سودی مسائل کا بیان ہے ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:304/2:موقوف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آخری وقت میں میں نے آپ سے سنا فرماتے تھے قول وہی ہے جو میں نے کہا ، تو میں نے پوچھا وہ کیا ؟ فرمایا یہ کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ وہ ۔ ایک اور روایت میں ہے سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے اور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے درمیان کلالہ کے بارے میں اختلاف ہوا اور بات وہی تھی جو میں کہتا تھا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سگے بھائیوں اور ماں زاد بھائیوں کو جبکہ وہ جمع ہوں ، ثلث میں شریک کیا تھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے خلاف تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ خلیفتہ المؤمنین سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک رقعہ پر دادا کے ورثے اور کلالہ کے بارے میں کچھ لکھا پھر استخارہ کیا اور ٹھہرے رہے اور اللہ سے دعا کی کہ پروردگار اگر تیرے علم میں اس میں بہتری ہے تو تو اسے جاری کر دے پھر جب آپ کو زخم لگایا گیا تو آپ نے اس رقعہ کو منگوا کر مٹا دیا اور کسی کو علم نہ ہوا کہ اس میں کیا تحریر تھا پھر خود فرمایا کہ میں نے اس میں دادا کا اور کلالہ کا لکھا تھا اور میں نے استخارہ کیا تھا ۔ پھر میرا خیال یہی ہوا کہ تمہیں اسی پر چھوڑ دوں جس پر تم ہو ۔ ابن جریر میں ہے میں اس بارے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف کرتے ہوئے شرماتا ہوں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فرمان تھا کہ کلالہ وہ ہے جس کا ولد و والد نہ ہو ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:439/9) اور اسی پر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم اور ائمہ دین ہیں اور یہی چاروں اماموں اور ساتوں فقہاء کا مذہب ہے اور اسی پر قرآن کریم کی دلالت ہے جیسے کہ باری تعالیٰ عزاسمہ نے اسے واضح کر کے فرمایا اللہ تمہارے لیے کھول کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ الحمدللہ سورہ نساء کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔