يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچاؤ تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح باخبر ہے۔
انصاف اور سچی گواہی تقوے کی روح ہے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عدل و انصاف پر مضبوطی سے جمے رہیں اس سے ایک انچ ادھر ادھر نہ سرکیں ، ایسا نہ ہو کہ ڈر کی وجہ سے یا کسی لالچ کی بنا پر یا کسی خوشامد میں یا کسی پر رحم کھا کر یا کسی سفارش سے عدل و انصاف چھوڑ بیٹھیں ۔ سب مل کر عدل کو قائم و جاری کریں ایک دوسری کی اس معاملہ میں مدد کریں اور اللہ کی مخلوق میں عدالت کے سکے جما دیں ۔ اللہ کے لیے گواہ بن جائیں جیسے اور جگہ ہے«وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلہِ» ۱؎ (65-الطلاق:2) ’ یعنی گواہیاں اللہ کی رضا جوئی کے لیے دو ‘ جو بالکل صحیح صاف سچی اور بیلاگ ہوں ۔ انہیں بدلو نہیں ، چھپاؤ نہیں ، چبا کر نہ بولو صاف صاف سچی شہادت دو چاہے وہ تمہارے اپنے ہی خلاف ہو تم حق گوئی سے نہ رکو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار غلاموں کی مخلصی کی صورتیں بہت سی نکال دیتا ہے کچھ اسی پر موقوف نہیں کہ جھوٹی شہادت سے ہی اس کا چھٹکارا ہو ۔ گو سچی شہادت ماں باپ کے خلاف ہوتی ہو گو اس شہادت سے رشتے داروں کا نقصان پہنچتا ہو ، لیکن تم سچ ہاتھ سے نہ جانے دو گواہی سچی دو ، اس لیے کہ حق ہر ایک پر غالب ہے ، گواہی کے وقت نہ تونگر کا لحاظ کرو نہ غریب پر رحم کرو ۔ ان کی مصلحتوں کو اللہ اعلیٰ و اکبر تم سے بہت بہتر جانتا ہے ، تم ہر صورت اور ہر حالت میں سچی شہادت ادا کرو ، دیکھو کسی کے برے میں آ کر خود اپنا برا نہ کر لو ، کسی کی دشمنی میں عصبیت اور قومیت میں فنا ہو کر عدل و انصاف ہاتھ سے نہ جانے دو بلکہ ہر حال ہر آن عدل و انصاف کا مجسمہ بنے رہو ۔ جیسے اور جگہ فرمان باری ہے ۔ «وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا ۭاِعْدِلُوْا ۣ ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی» ۱؎ (5-المائدۃ:8) ’ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل کرنے پر آمادہ نہ کر دے عدل کرتے رہو یہی تقویٰ کی شان کے قریب تر ہے ۔ ‘ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کی کھیتیوں اور باغوں کا اندازہ کرنے کو بھیجا تو انہوں نے آپ کو رشوت دینا چاہی کہ آپ مقدار کم بتائیں تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تمام مخلوق سے زیادہ عزیز ہیں اور تم میرے نزدیک کتوں اور خنزیروں سے بدتر ہو لیکن باوجود اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں آ کر یا تمہاری عداوت کو سامنے رکھ کر ناممکن ہے کہ میں انصاف سے ہٹ جاؤں اور تم میں عدل نہ کروں ۔ یہ سن کر وہ کہنے لگے بس اسی سے تو زمین و آسمان قائم ہے ۔ یہ پوری حدیث سورۃ المائدہ کی تفسیر میں آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے«وَلَا تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ۚ وَمَن یَکْتُمْہَا فَإِنَّہُ آثِمٌ قَلْبُہُ ۗ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ » ۱؎ (2-البقرۃ:283) اگر تم نے شہادت میں تحریف کی یعنی بدل دی غلط گوئی سے کام لیا واقعہ کے خلاف گواہی دی دبی زبان سے پیچیدہ الفاظ کہے واقعات غلط پیش کر دئے یا کچھ چھپا لیا کچھ بیان کیا تو یاد رکھو اللہ جیسے باخبر حاکم کے سامنے یہ چال چل نہیں سکتی وہاں جا کر اس کا بدلہ پاؤ گے اور سزا بھگتو گے ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ( حدیث ) «خَیْرِ الشٰہَدَاءِ الَّذِی یَأْتِی بِشَہَادَتِہِ قَبْلَ أَنْ یُسْأَلَہَا» { بہترین گواہ وہ ہیں جو دریافت کرنے سے پہلے ہی سچی گواہی دے دیں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1719)