َالْفَجْرِ
قسم ہے فجر کی!
شفع اور وتر سے کیا مراد ہے اور قوم عاد کا قصہ «فجر» تو ہر شخص جانتا ہے یعنی صبح اور یہ مطلب بھی ہے کہ بقر عید کے دن کی صبح ، اور یہ مراد بھی ہے کہ صبح کے وقت کی نماز ، اور پورا دن اور دس راتوں سے مراد ذی الحجہ مہینے کی پہلی دس راتیں ۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے کہ { کوئی عبادت ان دس دنوں کی عبادت سے افضل نہیں ، لوگوں نے پوچھا : اللہ کی راہ کا جہاد بھی نہیں ؟ ، فرمایا : ” یہ بھی نہیں مگر وہ شخص جو جان مال لے کر نکلا اور پھر کچھ بھی ساتھ لے کر نہ پلٹا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:969) بعض نے کہا ہے محرم کے پہلے دس دن مراد ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رمضان شریف کے پہلے دس دن لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے یعنی ذی الحجہ کی شروع کی دس راتیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ «عَشَرُ» سے مراد عید الاضحی کے دس دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے اور «شَّفْعُ» سے مراد قربانی کا دن ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:327/3:مرفوعاً ضعیف) اس کی اسناد میں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن متن میں نکارت ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «وَتْرُ» سے مراد عرفے کا دن ہے یہ نویں تاریخ ہوتی ہے تو «شَّفْعُ» سے مراد دسویں تاریخ یعنی بقر عید کا دن ہے وہ طاق ہے یہ جفت ہے واصل بن سائب رحمہ اللہ نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا «وَتْرُ» سے مراد یہی وتر نماز ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ، «شَّفْعُ» عرفہ کا دن ہے اور «وَتْرُ» عید الاضحی کی رات ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ «شَّفْعُ» کیا ہے اور «وَتْرُ» کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : «فَمَنْ تَعَجَّلَ فِی یَوْمَیْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:203) میں جو دو دن کا ذکر ہے وہ «شَّفْعُ» ہے اور «وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ» ۱؎ (2-البقرۃ:203) میں جو ایک دن ہے وہ «وَتْرُ» ہے یعنی گیارہویں ، بارہویں ذی الحجہ کی «شَّفْعُ» اور تیرھویں «وَتْرُ» ہے ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ایام تشریق کا درمیانی دن «شَّفْعُ» ہے اور آخری دن «وَتْرُ» ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:37102:ضعیف) بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ کے ایک کم ایک سو نام ہیں جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے وہ وتر ہے ، وتر کو دوست رکھتا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6410) زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس سے مراد تمام مخلوق ہے اس میں «شَّفْعُ» بھی ہے اور «وَتْرُ» بھی “ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مخلوق «شَّفْعُ» اور اللہ «وَتْرُ» ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ «شَّفْعُ» صبح کی نماز ہے اور «وَتْرُ» مغرب کی نماز ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ «شَّفْعُ» سے مراد جوڑ جوڑ اور «وَتْرُ» سے مراد اللہ عزوجل جیسے آسمان ، زمین ، تری ، خشکی ، جن ، انس ، سورج ، چاند وغیرہ ۔ قرآن میں ہے «وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ» ۱؎ (51-الذاریات:49) یعنی ’ ہم نے ہر چیز کو جوڑ جوڑ پیدا کیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کر لو ‘ یعنی جان لو کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ واحد ہے جس کا کوئی شریک نہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد گنتی ہے جس میں جفت بھی ہے اور طاق بھی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ «شَّفْعُ» سے مراد دو دن ہیں اور «وَتْرُ» سے مراد تیسرا دن ہے ۔ یہ حدیث اس حدیث کے مخالف ہے جو اس سے پہلے گزر چکی ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اس میں «شَّفْعُ» ہے جیسے صبح کی دو ، ظہر ، عصر اور عشاء کی چار ، چار اور وتر ہے جیسے مغرب کی تین رکعتیں جو دن کے «وَتْرُ» ہیں اور اسی طرح آخری رات کا «وَتْرُ» ۔ ایک مرفوع حدیث میں مطلق نماز کے لفظ کے ساتھ مروی ہے ، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرض نماز مروی ہے لیکن یہ مرفوع حدیث نہیں ۔ زیادہ ٹھیک یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:437/4:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان آٹھ نو اقوال میں سے کسی کو فیصل قرار نہیں دیا ۔ پھر فرماتا ہے رات کی قسم جب جانے لگے اور یہ بھی معنی کیے گئے ہیں کہ جب آنے لگے بلکہ یہی معنی زیادہ مناسب اور «وَالْفَجْرِ» سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔ «فجر» کہتے ہیں رات کے جانے کو اور دن کے آنے کو تو یہاں رات کا آنا اور دن کا جانا مراد ہو گا ۔ جیسے آیت «وَاللَّیْلِ إِذَا عَسْعَسَ» * «وَالصٰبْحِ إِذَا تَنَفَّسَ» ۱؎ (81-التکویر:17-18) میں عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مراد مزدلفہ کی رات ہے «حِجْرٍ» سے مراد عقل ہے ، «حِجْرٍ» کہتے ہیں روک کو چونکہ عقل بھی غلط کاریوں اور جھوٹی باتوں سے روک دیتی ہے اس لیے اسے عقل کہتے ہیں ۔ حطیم کو بھی «حجر البیت» اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ طواف کرنے والے کو کعبۃ اللہ کی شامی دیوار سے روک دیتا ہے اسی سے ماخوذ ہے «حِجْرُ الْیَمَامَۃِ» اور اسی لیے عرب کہتے ہیں «وَحَجَرَ الْحَاکِمُ عَلَی فُلَانٍ» جبکہ کسی شخص کو بادشاہ تصرف سے روک دے اور کہتے ہیں کہ «وَیَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:22) تو فرماتا ہے کہ ’ ان میں عقلمندوں کے لیے قابل عبرت قسم ہے ‘ ، کہیں تو قسمیں ہیں عبادتوں کی کہیں عبادت کے وقتوں کی جیسے حج نماز وغیرہ کہ جن سے اس کے نیک بندے اس کا قرب اور اس کی نزدیکی حاصل کرتے ہیں اور اس کے سامنے اپنی پستی اور خود فراموشی ظاہر کرتے ہیں جب ان پرہیزگار نیک کار لوگوں کا اور ان کی عاجزی و تواضع خشوع و خضوع کا ذکر کیا تو اب ان کے ساتھ ہی ان کے خلاف جو سرکش اور بدکار لوگ ہیں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ تو فرماتا ہے کہ ’ کیا تم نے نہ دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے عادیوں کو غارت کر دیا جو کہ سرکش اور متکبر تھے ، اللہ کی نافرمانی کرتے ، رسول کی تکذیب کرتے اور بدیوں پر جھک پڑتے تھے ان میں اللہ کے رسول ہود علیہ السلام آئے تھے ‘ ۔ یہ عاد اولیٰ ہیں جو عاد بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں تھے ، اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایمانداروں کو تو نجات دے دی اور باقی بےایمانوں کو تیز و تند اور ہلاک آفریں ہواؤں سے ہلاک کیا ۔ سات راتیں اور آٹھ دن تک یہ غضب ناک آندھی چلتی رہی اور یہ سارے کے سارے اس طرح غارت ہو گئے کہ ان کے سر الگ تھے اور دھڑ الگ تھے ان میں سے ایک بھی باقی نہ رہا جس کا مفصل بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ سورۃ الحاقہ میں بھی یہ بیان ہے «سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَثَمَانِیَۃَ أَیَّامٍ حُسُومًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیہَا صَرْعَیٰ کَأَنَّہُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ» * «فَہَلْ تَرَیٰ لَہُمْ مِنْ بَاقِیَۃٍ» ۱؎ (69-الحاقہ:7-8) ۔ «إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» ۱؎ (89-الفجر:7) یہ عاد کی تفسیر بطور عطف بیان کے ہے تاکہ بخوبی وضاحت ہو جائے ، یہ لوگ مضبوط اور بلند ستونوں والے گھروں میں رہتے تھے اور اپنے زمانے مکے اور لوگوں سے بہت بڑے تن و توش والے قوت و طاقت والے تھے اسی لیے ہود علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا «وَاذْکُرُوا إِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَسْطَۃً فَاذْکُرُوا آلَاءَ اللہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ» ۱؎ (7-الأعراف:69) الخ یعنی ’ یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوم نوح کے بعد زمین پر خلیفہ بنایا ہے اور تمہیں جسمانی قوت پوری طرح دی ، تمہیں چاہیئے کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں فسادی بن کر نہ رہو ‘ ۔ اور جگہ ہے کہ «فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوا فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدٰ مِنَّا قُوَّۃً أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَہُمْ ہُوَ أَشَدٰ مِنْہُمْ قُوَّۃً» (41-فصلت:15) یعنی ’ عادیوں نے زمین میں ناحق سرکشی کی اور بول اٹھے کہ ہم سے زیادہ قوت والا اور کون ہے ؟ کیا وہ بھول گئے کہ ان کا پیدا کرنے والا ان سے بہت ہی زبردست اور طاقت و قوت والا ہے ‘ ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس قبیلے جیسے طاقتور اور شہروں میں نہ تھے بڑے طویل القامت قوی الجثہ تھے ، ارم ان کا دار السلطنت تھا ۔ انہیں ستونوں والے کہا جاتا تھا اس لیے بھی کہ یہ لوگ بہت دراز قد تھے بلکہ صحیح وجہ یہی ہے ۔ «مِثْلُہَا» کی ضمیر کا مرجع «عِمَادِ» بتایا گیا ہے ان جیسے اور شہروں میں نہ تھے یہ احقاف میں بنے ہوئے لمبے لمبے ستون تھے اور بعض نے ضمیر کا مرجع قبیلہ بتایا ہے یعنی اس قبیلے جیسے لوگ اور شہروں میں نہ تھے اور یہی قول ٹھیک ہے اور اگلا قول ضعیف ہے اسی لیے بھی کہ یہی مراد ہوتی تو «لَمْ یَجْعَلٌ» کہا جاتا نہ کہ «لَمْ یُخْلَقْ» ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” ان میں اس قدر زور و طاقت تھی کہ ان میں سے کوئی اٹھتا اور اور ایک بڑی ساری چٹان لے کر کسی قبیلے پر پھینک دیتا تو بیچارے سب کے سب دب کر مر جاتے } ۱؎ ۔ (الدر المنثور للسیوطی:583/6:ضعیف) ثور بن زید دیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک ورق پر یہ لکھا ہوا پڑھا ہے کہ میں شداد بن عاد ہوں ، میں نے ستون بلند کیے ہیں ، میں نے ہاتھ مضبوط کیے ہیں ، میں نے سات ذرائع کے خزانے جمع کیے ہیں ، جو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نکالے گی ، غرض خواہ یوں کہو کہ وہ عمدہ اونچے اور مضبوط مکانوں والے تھے خواہ یوں کہو کہ وہ بلند و بالا ستونوں والے تھے یا یوں کہو کہ وہ بہترین ہتھیاروں والے تھے یا یوں کہو لمبے لمبے قد والے مطلب یہ ہے کہ ایک قوم تھی جن کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ ثمودیوں کے ساتھ آ چکا ہے ، یہاں بھی اسی طرح عادیوں اور ثمودیوں کا دونوں کا ذکر ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» بعض حضرات نے یہ بھی کہا کہ «إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ» ایک شہر ہے یا تو دمشق یا اسکندریہ لیکن یہ قول ٹھیک نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ عبارت کا ٹھیک مطلب نہیں بنتا کیونکہ یا تو یہ بدل ہو سکتا ہے یا عطف بیان ۔ دوسرے اس لیے بھی کہ یہاں یہ بیان مقصود ہے کہ ہر ایک سرکش قبیلے کو اللہ نے برباد کیا جن کا نام عادی تھا ، نہ کہ کسی شہر کو میں نے اس بات کو یہاں اس لیے بیان کر دیا ہے تاکہ جن مفسرین کی جماعت نے یہاں یہ تفسیر کی ہے کہ ان سے کوئی شخص دھوکے میں نہ پڑے وہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک شہر کا نام ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی ہے دوسری چاندی کی اس کے مکانات ، باغات وغیرہ سب چاندی سونے کے ہیں کنکر لولو اور جواہر ہیں ، مٹی مشک ہے نہریں بہہ رہی ہیں ، پھل تیار ہیں ، کوئی رہنے سہنے والا نہیں ہے ، در و دیوار خالی ہیں ، کوئی ہاں ہوں کرنے والا بھی نہیں ، یہ شہر جگہ بدلتا رہتا ہے کبھی شام میں ، کبھی یمن میں ، کبھی عراق میں ، کبھی کہیں ، کبھی کہیں ، وغیرہ یہ سب خرافات بنو اسرائیل کی ہیں ان کے بددینوں نے یہ خود ساختہ روایت تیار کی ہے تاکہ جاہلوں میں باتیں بنائیں ۔ ثعلبی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اپنے گمشدہ اونٹوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ جنگل بیابان میں اس نے اسی صفت کا ایک شہر دیکھا اور اس میں گیا ، گھوما پھرا ، پھر لوگوں سے آ کر ذکر کیا لوگ بھی وہاں گئے لیکن پھر کچھ نظر نہ آیا ۔ ابن ابی حاتم نے یہاں ایسے قصے بہت سے لمبے چوڑے نقل کیے ہیں یہ حکایت بھی صحیح نہیں اور اگر یہ اعرابی والا قصہ سنداً صحیح مان لیں تو ممکن ہے کہ اسے ہوس اور خیال ہو اور اپنے خیال میں اس نے یہ نقشہ جما لیا ہو اور خیالات کی پختگی اور عقل کی کمی نے اسے یقین دلایا ہو کہ وہ صحیح طور پر یہی دیکھ رہا ہے اور فی الواقع یوں نہ ہو - ٹھیک اسی طرح جو جاہل حریص اور خیالات کے کچے ہوں سمجھتے ہیں کہ کسی خاص زمین تلے سونے چاندی کے پل ہیں اور قسم قسم کے جواہر یاقوت لولو اور موتی ہیں اکسیر کبیر ہے لیکن ایسے چند موانع ہیں کہ وہاں لوگ پہنچ نہیں سکتے مثلا خزانے کے منہ پر کوئی اژدھا بیٹھا ہے کسی جن کا پہرہ ہے وغیرہ یہ سب فضول قصے اور بناوٹی باتیں ہیں انہیں گھڑ گھڑا کر بیوقوفوں اور مال کے حریصوں کو اپنے دام میں پھانس کر ان سے کچھ وصول کرنے کے لیے مکاروں نے مشہور کر رکھے ہیں ، پھر کبھی چلے کھینچنے کے بہانے سے ، کبھی بخور کے بہانے سے ، کبھی کسی اور طرح سے ، ان سے یہ مکار روپے وصول کر لیتے ہیں اور اپنا پیٹ پالتے ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ زمین میں سے جاہلیت کے زمانے کا یا مسلمانوں کے زمانے کا کسی کا گاڑا ہوا مال نکل آئے تو اس کا پتہ جسے چل جائے وہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے نہ وہاں کوئی مار گنج ہوتا ہے ، نہ کوئی دیو ، بھوت ، جن ، پری جس طرح ان لوگوں نے مشہور کر رکھا ہے یہ بالکل غیر صحیح ہے یہ ایسے ہی لوگوں کی خود ساختہ بات ہے یا ان جیسے ہی لوگوں سے سنی سنائی ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک سمجھ دے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ ممکن ہے اس سے قبیلہ مراد ہو اور ممکن ہے شہر مراد و لیکن ٹھیک نہیں ، یہاں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک قوم کا ذکر ہے نہ کہ شہر کا ، اسی لیے اس کے بعد ہی ثمودیوں کا ذکر کیا کہ وہ ثمودی جو پتھروں کو تراش لیا کرتے تھے ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِہِیْنَ» ۱؎ (26-الشعراء:149) یعنی ’ تم پہاڑوں میں اپنے کشادہ آرام دہ مکانات اپنے ہاتھوں پتھروں میں تراش لیا کرتے ہو ‘ ۔ اس کے ثبوت میں کہ اس کے معنی تراش لینے کے ہیں ، عربی شعر بھی ہیں ۔ ابن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثمودی عرب تھے وادی القری میں رہتے تھے عادیوں کا قصہ پورا پورا سورۃ الاعراف میں ہم بیان کر چکے ہیں ، اب اعادہ کی ضرورت نہیں ، پھر فرمایا : میخوں والا فرعون ، «أَوْتَادُ» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لشکروں کے کیے ہیں جو کہ اس کے کاموں کو مضبوط کرتے رہتے تھے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ فرعون غصے کے وقت لوگوں کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گڑوا کر مروا ڈالتا تھا ، چورنگ کر کے اوپر سے بڑا پتھر پھینکتا تھا جس سے اس کا کچومر نکل جاتا تھا ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسیوں اور میخوں وغیرہ سے اس کے سامنے کھیل کیے جاتے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس نے اپنی بیوی صاحبہ کو جو مسلمان ہو گئی تھیں لٹا کر دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں میخیں گاڑیں پھر بڑا سا چکی کا پتھر ان کی پیٹھ پر مار کر جان لے لی ، اللہ ان پر رحم کرے ۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے سرکشی پر کمر باندھ لی تھی اور فسادی لوگ تھے ، لوگوں کو حقیر و ذلیل جانتے تھے اور ہر ایک کو ایذاء پہنچاتے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے عذاب کا کوڑا برس پڑا ۔ وہ وبال آیا جو ٹالے نہ ٹلا ، ہلاک و برباد اور نیست و نابود ہو گئے ، تیرا رب گھات میں ہے دیکھ رہا ہے ، سن رہا ہے ، سمجھ رہا ہے ، وقت مقررہ پر ہر برے بھلے کو نیکی ، بدی کی جزاء سزا دے گا یہ سب لوگ اس کے پاس جانے والے تن تنہا اس کے سامنے کھڑے ہونے والے ہیں اور وہ عدل و انصاف کے ساتھ ان میں فیصلے کرے گا اور ہر شخص کو پورا پورا بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق تھا وہ ظلم و جور سے پاک ہے ۔ یہاں ابن ابی حاتم نے ایک حدیث وارد کی ہے جو بہت غریب ہے جس کی سند میں کلام ہے اور صحت میں بھی نظر ہے اس میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے معاذ ! مومن حق کا قیدی ہے ، اے معاذ ! مومن تو امید وہم کی حالت میں ہی رہتا ہے ، جب تک کہ پل صراط سے پار نہ ہو جائے ۔ اے معاذ ! مومن کو قرآن نے بہت سی دلی خواہشوں سے روک رکھا ہے تاکہ وہ ہلاکت سے بچ جائے ، قرآن اس کی دلیل ہے ، خوف اس کی حجت ہے ، شوق اس کی سواری ہے ، نماز اس کی پناہ ہے ، روزہ اس کی ڈھال ہے ، صدقہ اس کا چھٹکارا ہے ، سچائی اس کی امیر ہے ، شرم اس کا وزیر ہے اور اس کا رب ان سب کے بعد اس پر واقف و آگاہ ہے وہ تیز تیز نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہے “ } ، اس کے راوی یونس حذاء اور ابوحمزہ مجہول ہیں پھر اس میں ارسال بھی ہے ممکن ہے یہ ابوحمزہ ہی کا کلام ہو ۔ ۱؎ (ضعیف و منقطع) اسی ابن ابی حاتم میں ہے کہ ابن عبدالکلاعی نے اپنے ایک وعظ میں کہا : لوگو ! جہنم کے سات پل ہیں ان سب پر پل صراط ہے پہلے ہی پل پر لوگ روکے جائیں گے یہاں نماز کا حساب کتاب ہو گا یہاں سے نجات مل گئی تو دوسرے پل پر روک ہو گی ، یہاں امانتداری کا سوال ہو گا جو امانت دار ہو گا اس نے نجات پائی اور جو خیانت والا نکلا ہلاک ہوا ، تیسرے پل پر صلہ رحمی کی پرسش ہو گی اس کے کاٹنے والے یہاں سے نجات نہ پا سکیں گے اور ہلاک ہوں گے رشتہ داری یعنی صلہ رحمی وہیں موجود ہو گی اور یہ کہہ رہی ہو گی کہ اللہ جس نے مجھے جوڑا تو اسے جوڑ اور جس نے مجھے توڑا تو اسے توڑ یہی معنی ہیں «إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ» ۱؎ (89-الفجر:14) یہ اثر اتنا ہی ہے پورا نہیں ۔