سورة الأعلى - آیت 1

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 مسند احمد میں ہے { عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ» ۱؎ (56-الواقعۃ:74) اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے تم اپنے رکوع میں کر لو “ جب «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی» ۱؎ (87-الأعلی:1) اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اسے اپنے سجدے میں کر لو “ } ۱؎ (سنن ابوداود:869،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی» ۱؎ (87-الأعلی:1) پڑھتے تو کہتے «سُبْحَان رَبِّی الْأَعْلَی» } ۱؎ (سنن ابوداود:883،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ مروی ہے ۔ اور آپ جب «لَا أُقْسِم بِیَوْمِ الْقِیَامَۃ» ۱؎ (75-القیامۃ:1) پڑھتے اور آخری آیت «أَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِرٍ عَلَیٰ أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَیٰ» ۱؎ (75-القیامۃ:40) پر پہنچتے تو فرماتے «سُبْحَانک وَبَلَی» ۱؎ (75-القیامۃ:40) اللہ تعالیٰ یہاں ارشاد فرماتا ہے ’ اپنے بلندیوں والے ، پرورش کرنے والے ، اللہ کے پاک نام کی پاکیزگی اور تسبیح بیان کرو جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا اور سب کو اچھی ہیئت بخشی ، انسان کو سعادت شقاوت کے چہرے دکھا دئیے اور جانور کو چرنے چگنے وغیرہ کے سامان مہیا کیے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «رَبٰنَا الَّذِی أَعْطَیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہُ ثُمَّ ہَدَیٰ» ۱؎ (20-طہ:50) یعنی ’ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی پیدائش عطا فرمائی پھر رہبری کی ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { زمین آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا ۱؎ (سنن ترمذی:2134،قال الشیخ الألبانی:صحیح) جس میں ہر قسم کے نباتات اور کھیت نکالے پھر ان سرسبز چاروں کو خشک اور سیاہ رنگ کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2653) بعض عارفان کلام عرب نے کہا ہے کہ یہاں بعض الفاظ جو ذکر میں مؤخر ہیں معنی کے لحاظ سے مقدم ہیں ، یعنی مطلب یہ ہے کہ جس نے گھاس چارہ سبز رنگ سیاہی مائل پیدا کیا پھر اسے خشک کر دیا ، گویہ معنی بھی بن سکتے ہیں لیکن کچھ ٹھیک نظر نہیں آتے کیونکہ مفسرین کے اقوال کے خلاف ہیں ۔