لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
ایمان والوں میں سے بیٹھ رہنے والے، جو کسی تکلیف والے نہیں اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہیں، اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت دی ہے اور ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت عطا فرمائی ہے۔
مجاہد اور عوام میں فرق صحیح بخاری میں ہے کہ جب اس آیت کے ابتدائی الفاظ اترے کہ گھروں میں بیٹھ رہنے والے جہاد کرنے والے مومن برابر نہیں ، تو آپ اسے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو بلوا کر لکھوا رہے تھے { اس وقت سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا آئے اور کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تو نابینا ہوں معذور ہوں } اس پر الفاظ «غَیْرُ أُولِی الضَّرَرِ» نازل ہوئے ۱؎ (صحیح بخاری:4593) یعنی ’ وہ بیٹھ رہنے والے جو بےعذر ہوں ‘ ان کا ذکر ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ قلم دوات اور شانہ لے کر آئے تھے ۱؎ (صحیح بخاری:4594) اور حدیث میں ہے کہ { سیدنا ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو میں ضرور جہاد میں شامل ہوتا اس پر وہ آیت اتری اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی ران پر تھی ان پر اس قدر بوجھ پڑا قریب تھا کہ ران ٹوٹ جائے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2832) وہ حدیث میں ہے کہ جس وقت ان آیات کی وحی اتری اور اس کے بعد طمانیت آپ پر نازل ہوئی { میں آپ کے پہلو میں تھا اللہ کی قسم مجھ پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کا ایسا بوجھ پڑا کہ میں نے اس سے زیادہ بوجھل چیز زندگی بھر کوئی اٹھائی پھر وحی ہٹ جانے کے بعد آپ نے «عَظِیمًا» تک آیت لکھوائی اور میں نے اسے شانے کی ہڈی پر لکھ لیا } اور حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ابھی تو سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے جو آپ پر وحی نازل ہونا شروع ہوئی ، سیدنا زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں { وہ منظر اب تک میری نگاہوں کے سامنے ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ بعد میں اترے ہوئے الفاظ کو میں نے ان کی جگہ پر اپنی تحریر میں بعد میں بڑھایا ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2507،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مراد بدر کی لڑائی میں جانے والے اور اس میں حاضر نہ ہونے والے ہیں . ۱؎ (صحیح بخاری:4595) { غزوہ بدر کے موقعہ پر سیدنا عبداللہ بن حجش اور سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہما آکر حضور سے کہنے لگے ہم دونوں نابینا ہیں کیا ہمیں رخصت ہے ؟ تو انہیں آیت قرآنی میں رخصت دی گئی } پس مجاہدین کو جس قسم کے بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت دی گئی ہے وہ وہ ہیں جو صحت و تندرستی والے ہوں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3032:صحیح) پس پہلے تو مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر مطلقاً فضیلت تھی لیکن اسی وحی میں جو الفاظ اترے اس نے ان لوگوں کو جنہیں مباح عذر ہوں عام بیٹھ رہنے والوں سے مستثنیٰ کر دیا جیسے اندھے لنگڑے لولے اور بیمار ، یہ مجاہدین کے درجے میں ہیں ۔ پھر مجاہدین کی جو فضیلت بیان ہوئی ہے وہ ان لوگوں پر بھی ہے جو بیوجہ جہاد میں شامل نہ ہوئے ہوں ، جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر گذری اور یہ ہونا بھی چاہیئے بخاری میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ تم جس جہاد کے لیے سفر کرو اور جس جنگل میں کوچ کرو وہ تمہارے ساتھ اجر میں یکساں ہیں صحابہ نے کہا باوجود یہ کہ وہ مدینے میں مقیم ہیں ، آپ نے فرمایا اس لیے کہ انہیں عذر نے روک رکھا ہے } ۱؎ (صحیح بخاری:2839) اور روایت میں ہے کہ تم جو خرچ کرتے ہو اس کا ثواب بھی جو تمہیں ملتا ہے انہیں بھی ملتا ہے ۱؎ (سنن ابوداود:2508:صحیح) اسی مطلب کو ایک شاعر نے ان الفاظ میں « یارا حلین الی البیت العتیق لقد»«سر تم جسو ماو سرنا نحن ارواحا»«انا اقمنا علی عذروعن قدر»«ومن اقام علی عذر فقدراحا»یعنی اے اللہ کے گھر کے حج کو جانے والو ! اگر تم اپنے جسموں سمیت اس طرف چل رہے ہو لیکن ہم بھی اپنی روحانی روش سے اسی طرف لپکے جا رہے ہیں ، سنو ہماری جسمانی کمزوری اور عذر نے ہمیں روک رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ عذر سے رک جانے والا کچھ جانے والے سے کم نہیں ۔ پھر فرمایا ہے ہر ایک سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ جنت کا اور بہت بڑے اجر کا ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاد فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے ، پھر ارشاد ہے ، مجاہدین کو غیر مجاہدین پر بڑی فضیلت ہے ۔ پھر ان کے بلند درجات ان کے گناہوں کی معافی اور ان پر جو برکت و رحمت ہے اس کا بیان فرمایا اور اپنی عام بخشش اور عام رحم کی خبر دی ۔ بخاری و مسلم میں ہے { جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے راہ کے مجاہدین کے لیے تیار کیا ہے ہر دو درجوں میں اس قدر فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین میں } ۱؎ (صحیح بخاری:2790) اور حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے اسے جنت کا درجہ ملتا ہے ایک شخص نے پوچھا درجہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ تمہارے یہاں کے گھروں کے بالا خانوں جتنا نہیں بلکہ دو درجوں میں سو سال کا فاصلہ ہے ۔ } ۱؎ (الدر المنثور :365/2:ضعیف و منقطع)