فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلًا
پس اللہ کے راستے میں جنگ کر، تجھے تیری ذات کے سوا کسی کی تکلیف نہیں دی جاتی اور ایمان والوں کو رغبت دلا، اللہ قریب ہے کہ ان لوگوں کی لڑائی روک دے جنھوں نے کفر کیا اور اللہ بہت سخت لڑائی والا اور بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
حکم جہاد امتحان ایمان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو رہا ہے کہ آپ تنہا اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں چاہے کوئی بھی آپ کا ساتھ نہ دے ، ابواسحاق رحمہ اللہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے دریافت فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان اکیلا تنہا ہو اور دشمن ایک سو ہوں تو کیا وہ ان سے جہاد کرے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تو کہا پھر قرآن کی اس آیت سے تو ممانعت تاکید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وَلَا تُلْقُوا بِأَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَۃِ ۛ» ۱؎ (2-البقرۃ:195) ’ اپنے ہاتھوں آپ ہلاکت میں نہ پڑو ۔ ‘ تو سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اسی آیت میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے اللہ کی راہ میں لڑ تجھے فقط تیرے نفس کی تکلیف دی جاتی ہے اور حکم دیا جاتا ہے کہ مومنوں کو بھی ترغیب دیتا رہ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:5704/3:حسن) مسند احمد میں اتنا اور بھی ہے کہ مشرکین پر تنہا حملہ کرنے والا ہلاکت کی طرف بڑھنے والا نہیں بلہ اس سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والا ہے ۔ (مسند احمد:281/4:حسن) اور روایت میں ہے کہ جب یہ آیت ہلاکت اتری تو { آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا مجھے میرے رب نے جہاد کا حکم دیا ہے پس تم بھی جہاد کرو } یہ حدیث غریب ہے ۔ ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:335/2:ضعیف) پھر فرماتا ہے مومنوں کو دلیری دلا اور انہیں جہاد کی رغبت دلا ، چنانچہ بدر والے دن میدان جہاد میں مسلمانوں کی صفیں درست کرتے ہوئے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اٹھو اور بڑھو اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1901)جہاد کی ترغیب کی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ بخاری میں ہے { جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے ، صلوۃ قائم کرے ، زکوٰۃ دیتا رہے ، رمضان کے روزے رکھے اللہ پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہو یا جہاں پیدا ہوا ہے وہیں ٹھہرا رہا ہو ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیا لوگوں کو اس کی خوشخبری ہم نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا سنو جنت میں سو درجے ہیں جن میں سے ایک درجے میں اس قدر بلندی ہے جتنی زمین و آسمان میں اور یہ درجے اللہ نے ان کے لیے تیار کیے ہیں جو اس کی راہ میں جہاد کریں ۔ پس جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ بہترین جنت ہے اور سب سے اعلیٰ ہے اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی سب نہریں جاری ہوتی ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2790) مسلم کی حدیث میں ہے { جو شخص اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول و نبی ہونے پر راضی ہو جائے اس کے لیے جنت واجب ہے } سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ اسے سن کر خوش ہو کر کہنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ ارشاد ہو { آپ نے دوبارہ اسی کو بیان فرما کر کہا ایک اور عمل ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے سو درجے بلند کرتا ہے ایک درجے سے دوسرے درجے تک اتنی بلندی ہے جتنی آسمان و زمین کے درمیان ہے پوچھا وہ عمل کیا ہے ؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1884) پھر ارشاد ہے جب آپ جہاد کے لیے تیار ہو جائیں گے مسلمان آپ کی تعلیم سے جہاد پر آمادہ ہو جائیں گے تو پھر اللہ کی مدد شامل حال ہو گی اللہ تعالیٰ کفر کی کمر توڑ دے گا کفار کی ہمت پست کر دے گا ان کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے پھر کیا مجال کہ وہ تمہارے مقابلے میں آئیں ، اللہ تعالیٰ سے زیادہ جنگی قوت رکھنے والا اور اس سے زیادہ سخت سزا دینے والا کوئی نہیں ، وہ قادر ہے کہ دنیا میں بھی انہیں مغلوب کرے اور یہیں انہیں عذاب بھی دے اسی طرح آخرت میں بھی اسی کو قدرت حاصل ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے ۔ «وَلَوْ یَشَاۗءُ اللّٰہُ لَانْتَـصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا۟ بَعْضَکُمْ بِبَعْـضٍ» ۱؎ (47-محمد:4) ’ اگر اللہ چاہے ان سے از خود بدلہ لے لے ، لیکن وہ ان کو اور تمہیں آزما رہا ہے ۔ ‘ جو شخص کسی امر خیر میں کوشش کرے تو اسے بھی اس خیر بھلائی کا ثواب ملے گا ، اور جو اس کے خلاف کوشش کرے اور بد نتیجہ برآمد کرے اس کی کوشش اور نیت کا اس پر بھی ویسا ہی بوجھ ہو گا ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سفارش کرو اجر پاؤ گے اور اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وہ جاری کرے گا جو چاہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1432) یہ آیت ایک دوسرے کی سفارش کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، اس مہربانی کو دیکھئیے فرمایا محض شفاعت پر ہی اجر مل جائے گا خواہ اس سے کام بنے یا نہ بنے ، اللہ ہرچیز کا حافظ ہے ، ہرچیز پر حاضر ہے ، ہرچیز کا حساب لینے والا ہے ، ہرچیز پر قادر ہے ، ہرچیز کو دوام بخشنے والا ہے ، ہر ایک کو روزی دینے والا ہے ، ہر انسان کے اعمال کا اندازہ کرنے والا ہے ۔