وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا
ان (فرشتوں) کی قسم جو ڈوب کر سختی سے ( جان) کھینچ لینے والے ہیں!
فرشتے موت اور ستارے اس سے مراد فرشتے ہیں جو بعض لوگوں کی روحوں کو سختی سے گھسیٹتے ہیں اور بعض روحوں کو بہت آسانی سے نکالتے ہیں جیسے کسی کے بند کھول دیئے جائیں ، کفار کی روحیں کھینچی جاتی ہیں پھر بند کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم میں ڈبو دیئے جاتے ہیں ، یہ ذکر موت کے وقت کا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا» سے مراد موت ہے ، بعض کہتے ہیں ، دونوں آیتوں سے مطلب ستارے ہیں ، بعض کہتے ہیں سخت لڑائی کرنے والے ہیں ، لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے ، یعنی روح نکالنے والے فرشتے ، اسی طرح تیسری آیت کی نسبت بھی یہ تینوں تفسیریں مروی ہیں یعنی فرشتے ، موت اور ستارے ۔ عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مراد کشتیاں ہیں “ ۔ اسی طرح «سَّابِقَاتِ» کی تفسیر میں بھی تینوں قول ہیں ، معنی یہ ہیں کہ ایمان اور تصدیق کی طرف آگے بڑھنے والے ، عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں ، پھر حکم اللہ کی تعمیل تدبیر سے کرنے والے ، اس سے مراد بھی فرشتے ہیں “ جیسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ وغیرہ کا قول ہے ، ” آسمان سے زمین کی طرف اللہ عزوجل کے حکم سے تدبیر کرتے ہیں “ ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ان اقوال میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ، کانپنے والی کے کانپنے اور اس کے پیچھے آنے والی کے پیچھے آنے سے مراد دونوں نفخہ ہیں ، پہلے نفخہ کا بیان اس آیت میں بھی ہے «یَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ» ۱؎ (73-المزمل:14) ’ جس دن زمین اور پہاڑ کپکپا جائیں گے ‘ ۔ دوسرے نفخہ کا بیان اس آیت میں ہے «وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَاحِدَۃً» ۱؎ (69-الحاقۃ:14) ’ اور زمین اور پہاڑ اٹھا لیے جائیں گے ، پھر دونوں ایک ہی دفعہ چور چور کر دیئے جائیں گے ‘ ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کانپنے والی آئے گی اس کے پیچھے ہی پیچھے آنے والی ہو گی یعنی موت اپنے ساتھ اپنی آفتیں لیے ہوئے آئے گی ، ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول ! اگر میں اپنے وظیفہ کا تمام وقت آپ پر درود پڑھنے میں گزاروں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تو اللہ تعالیٰ تجھے دنیا اور آخرت کے تمام غم و رنج سے بچا لے گا “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:5/136:حسن) ترمذی میں ہے کہ { وہ تہائی رات گزرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرماتے ” لوگو! اللہ کو یاد کرو کپکانے والی آ رہی ہے پھر اس کے پیچھے ہی اور آ رہی ہے ، موت اپنے ساتھ کی تمام آفات کو لیے ہوئے چلی آ رہی ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2457،قال الشیخ الألبانی:حسن) اس دن بہت سے دل ڈر رہے ہوں گے ، ایسے لوگوں کی نگاہیں ذلت و حقارت کے ساتھ پست ہوں گی کیونکہ وہ اپنے گناہوں اور اللہ کے عذاب کا معائنہ کر چکے ہیں ، مشرکین جو روز قیامت کے منکر تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا قبروں میں جانے کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ وہ آج اپنی اس زندگی کو رسوائی اور برائی کے ساتھ آنکھوں سے دیکھ لیں گے ۔ «حَافِرَۃِ» کہتے ہیں قبروں کو بھی ، یعنی قبروں میں چلے جانے کے بعد جسم کے ریزے ریزے ہو جانے کے بعد ، جسم اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے اور کھوکھلی ہو جانے کے بعد بھی کیا ہم زندہ کئے جائیں گے ؟ پھر تو یہ دوبار کی زندگی خسارے اور گھاٹے والی ہو گی ۔ کفار قریش کا یہ مقولہ تھا ۔ «حَافِرَۃِ» کے معنی موت کے بعد کی زندگی کے بھی مروی ہیں ، اور جہنم کا نام بھی ہے اس کے نام بہت سے ہیں جیسے «جحیم» ، «سقر» ، «جہنم» ، «ہاویہ» ، «حافرہ» ، «لظی» ، «حطمہ» وغیرہ ۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جس چیز کو یہ بڑی بھاری ، انہونی اور ناممکن سمجھے ہوئے ہیں وہ ہماری قدرت کاملہ کے ماتحت ایک ادنٰی سی بات ہے ، ادھر ایک آواز دی ادھر سب زندہ ہو کر ایک میدان میں جمع ہو گئے ‘ ، یعنی اللہ تعالیٰ سیدنا اسرافیل علیہ السلام کو حکم دے گا وہ صور پھونک دیں گے بس ان کے صور پھونکتے ہی تمام اگلے پچھلے جی اٹھیں گے اور اللہ کے سامنے ایک ہی میدان میں کھڑے ہو جائیں گے ، جیسے اور جگہ ہے «یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنٰوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:52) ، ’ جس دن وہ تمہیں پکارے گا اور تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور جان لو گے کہ بہت ہی کم ٹھہرے ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمحٍ بِالْبَصَرِ» ۱؎ (54-القمر:50) ’ ہمارا حکم بس ایسا ایک بارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَآ اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ہُوَ اَقْرَبُ» ۱؎ (16-النحل:77) ’ امر قیامت مثل آنکھ جھپکنے کے ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب ‘ ۔ یہاں بھی یہی بیان ہو رہا ہے کہ ’ صرف ایک آواز ہی کی دیر ہے اس دن پروردگار سخت غضبناک ہو گا ‘ ۔ یہ آواز بھی غصہ کے ساتھ ہو گی ، یہ آخری نفخہ ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد ہی تمام لوگ زمین کے اوپر آ جائیں گے ، حالانکہ اس سے پہلے نیچے تھے ۔ «سَّاہِرَۃِ» روئے زمین کو کہتے ہیں اور سیدھے صاف میدان کو بھی کہتے ہیں ۔ ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں ” اس سے مراد شام کی زمین ہے “ ۔ عثمان بن ابوعاتکہ رحمہ اللہ کا قول ہے ” اس سے مراد بیت المقدس کی زمین ہے “ ۔ وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” بیت المقدس کے ایک طرف یہ ایک پہاڑ ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں ” جہنم کو بھی «سَّاہِرَۃِ» کہتے ہیں “ ۔ لیکن یہ اقوال سب غریب ہیں ، ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی روئے زمین کے سب لوگ زمین پر جمع ہو جائیں گے ، جو سفید ہو گی اور بالکل صاف اور خالی ہو گی جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے ۔ اور جگہ ہے «یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ» ۱؎ (14-إبراھیم:48) ، یعنی ’ جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین ہو گی اور آسمان بھی بدل جائیں گا اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ واحد و قہار کے روبرو ہو جائے گی ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنسِفُہَا رَبِّی نَسْفًا فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا» ۱؎ (20-طہ:105-106) ’ لوگ تجھ سے پہاڑوں کے بارے پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ انہیں میرا رب ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور زمین بالکل ہموار میدان بن جائے گی جس میں کوئی موڑ توڑ نہ ہو گا ، نہ اونچی نیچی جگہ ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْأَرْضَ بَارِزَۃً» ۱؎ (18-الکہف:47) ’ ہم پہاڑوں کو چلنے والا کر دیں گے اور زمین صاف ظاہر ہو جائے گی ‘ ۔ غرض ایک بالکل نئی زمین ہو گی جس پر نہ کبھی کوئی خطا ہوئی نہ قتل و گناہ ۔