أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمھیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو۔ اور اگر انھیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے۔ کہہ دے سب اللہ کی طرف سے ہے، پھر ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔
. پھر فرماتا ہے موت کے پنجے سے بلند و بالا مضبوط اور مضبوظ قلعے اور محل بھی بچا نہیں سکتے ۔ بعض نے کہا مراد اس سے آسمان کے برج ہیں ، لیکن یہ قول ضعیف ہے صحیح یہی ہے کہ مراد محفوظ مقامات ہیں یعنی کتنی ہی حفاظت موت سے کی جائے ۔ لیکن وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی زہیر کا شعر ہے کہ موت سے بھاگنے والا گو زینہ لگا کر اسباب آسمانی بھی جمع کر لے تو بھی اسے کوئی نفع نہیں پہنچ سکتا ۔ ایک قول ہے «مٰشَیَّدَۃٍ» بہ تشدید «مَشِـْید» بغیر تشدید ایک ہی معنی میں ہیں اور بعض ان دونوں میں فرق کے قائل ہیں کہتے ہیں کہ اول کا معنی مطول دوسرے کا معنی مزین یعنی چونے سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر ایک مطول قصہ بزبان مجاہد رحمہ اللہ مروی ہے کہ اگلے زمانے میں ایک عورت حاملہ تھی جب اسے درد ہونے لگے اور بچی تولد ہوئی تو اس نے اپنے ملازم سے کہا کہ جاؤ کہیں سے آگ لے آؤ وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ دروازے پر ایک شخص کھڑا ہے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا لڑکی یا لڑکا ؟ اس نے کہا لڑکی ہوئی ہے کہا سن یہ لڑکی ایک سو آدمیوں سے زنا کرائے گی پھر اس کے ہاں اب جو شخص ملازم ہے اسی سے اس کا نکاح ہو گا اور ایک مکڑی اس کی موت کا باعث بنے گی ۔ یہ شخص یہیں سے پلٹ آیا اور آتے ہی ایک تیز چھری لے کر اس لڑکی کے پیٹ کو چیر ڈالا اور اسے مردہ سمجھ کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔ اس کی ماں نے یہ حال دیکھ کر اپنی بچی کے پیٹ کو ٹانکے لگا دئیے اور علاج معالجہ شروع کیا جس سے اس کا زخم بھر گیا اب ایک زمانہ گزر گیا ادھر یہ لڑکی بلوغت کو پہنچ گئی اور تھی بھی اچھی شکل و صورت کی بدچلنی میں پڑگئی ادھر ملازم سمندر کے راستے کہیں چلا گیا کام کاج شروع کیا اور بہت رقم پیدا کی کل مال سمیٹ کر بہت مدت بعد یہ پھر اسی اپنے گاؤں میں آ گیا ایک بڑھیا عورت کو بلا کر کہا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں گاؤں میں جو بہت خوبصورت عورت ہو اس سے میرا نکاح کرا دو ، یہ عورت گئی اور چونکہ شہر بھر میں اس لڑکی سے زیادہ خوش شکل کوئی عورت نہ تھی یہیں پیغام بھیجا ، منظور ہو گیا ، نکاح بھی ہو گیا اور وداع ہو کر یہ اس کے ہاں آ بھی گئی دونوں میاں بیوی میں بہت محبت ہو گئی ۔ ایک دن ذکر اذکار میں اس عورت نے اس سے پوچھا آخر آپ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں یہاں کیسے آ گئے ؟ وغیرہ اس نے اپنا تمام ماجرا بیان کر دیا کہ میں یہاں ایک عورت کے ہاں ملازم تھا اور وہاں سے اس کی لڑکی کے ساتھ یہ حرکت کر کے بھاگ گیا تھا اب اتنے برسوں کے بعد یہاں آیا ہوں تو اس لڑکی نے کہا جس کا پیٹ چیر کر تم بھاگے تھے میں وہی ہوں یہ کہہ کر اپنے اس زخم کا نشان بھی اسے دکھایا تب تو اسے یقین ہو گیا اور کہنے لگا جب تو وہی ہے تو ایک بات تیری نسبت مجھے اور بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تو ایک سو آدمیوں سے مجھ سے پہلے مل چکی ہے اس نے کہا ٹھیک ہے یہ کام تو مجھ سے ہوا ہے لیکن گنتی یاد نہیں ۔ اس نے کہا کہ مجھے تیری نسبت ایک اور بات بھی معلوم ہے وہ یہ کہ تیری موت کا سبب ایک مکڑی بنے گی ، خیر چونکہ مجھے تجھ سے بہت زیادہ محبت ہے میں تیرے لیے ایک بلند و بالا پختہ اور اعلیٰ محل تعمیر کرا دیتا ہوں اسی میں تو رہ تاکہ وہاں تک ایسے کیڑے مکوڑے پہنچ ہی نہ سکیں چنانچہ ایسا ہی محل تیار ہوا اور یہ وہاں رہنے سہنے لگی ۔ ایک مدت کے بعد ایک روز دونوں میاں بیوی بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک چھت پر ایک مکڑی دکھائی دی اسے دیکھتے ہیں اس شخص نے کہا دیکھو آج یہاں مکڑی دکھائی دی عورت بولی اچھا یہ میری جان لیوا ہے ؟ تو میں اس کی جان لوں گی غلاموں کو حکم دیا کہ اسے زندہ پکڑ کر میرے سامنے لاؤ نوکر پکڑ کر لے آئے اس نے زمین پر رکھ کر اپنے پیر کے انگوٹھے سے اسے مل ڈالا اس کی جان نکل گئی لیکن اس میں سے پیپ کا ایک آدھ قطرہ اس کے انگوٹھے کے ناخن اور گوشت کے درمیان اڑ کر چپک گیا اس کا زہر چڑھا پیر سیاہ پڑ گیا اور اسی میں آخر مر گئی ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر جب باغی چڑھ دوڑے تو آپ نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور ان کے اتفاق کی دعا کے بعد دو شعر پڑھے جن کا مطلب بھی یہی ہے کہ موت کو ٹالنے والی کوئی چیز اور کوئی حیلہ کوئی قوت اور کوئی چالاکی نہیں ، حضر کے بادشاہ ساطرون کو کسریٰ سابور ذوالا کتاف نے جس طرح قتل کیا وہ واقعہ بھی ہم یہاں لکھتے ہیں ، ابن ہشام میں ہے جب سابور عراق میں تھا تو اس کے علاقہ یر ساطرون نے چڑھائی کی تھی اس کے بدلے میں جب اس نے چڑھائی کی تو یہ قلعہ بند ہو گیا دو سال تک محاصرہ رہا لیکن قلعہ فتح نہ ہو سکا ۔ ایک روز ساطرون کی بیٹی نضیرہ اپنے باپ کے قلعہ کا گشت لگا رہی تھی اچانک اس کی نظرسابور پر پڑھ گئی یہ اس وقت شاہانہ پرتکلف ریشمی لباس میں تاج شاہی سر پر رکھے ہوئے تھا نضیرہ کے دل میں آیا کہ اس سے میری شادی ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو ؟ چنانچہ اس نے خفیہ پیغام بھیجنے شروع کیے اور وعدہ ہو گیا کہ اگر یہ لڑکی اس قلعہ پر سابور کا قبضہ کرا دے تو سابور اس سے نکاح کر لیگا ۔ اس کا باپ ساطرون بڑا شرابی تھا اس کی ساری رات نشہ میں کٹتی تھی اس کی لڑکی نے موقعہ پا کر رات کو اپنے باپ کو نشہ میں مد ہوش دیکھ کر اس کے سرہانے سے قلعہ کے دروازے کی کنجیاں چپکے سے نکال لیں اور اپنے ایک با اعتماد غلام کے ہاتھ سابور تک پہنچا دیں جس سے اس نے دروازہ کھول لیا اور شہر میں قتل عام کرایا اور قابض ہو گیا یہ بھی کہا گیا کہ اس قلعہ میں ایک جادو تھا جب تک اس طلسم کو توڑا نہ جائے قلعہ کا فتح ہونا ناممکن تھا اس لڑکی نے اس کے توڑنے کا گر اسے بتا دیا کہ ایک چت کبرا کبوتر لے کر اس کے پاؤں کسی باکرہ کے پہلے حیض کے خون سے رنگ لو پھر اس کبوتر کو چھوڑو وہ جا کر قلعہ کی دیوار پر بیٹھے تو فوراً وہ طلسم ٹوٹ جائے گا اور قلعہ کا پھاٹک کھل جائے گا ۔ چنانچہ سابور نے یہی کیا اور قلعہ فتح کر کے ساطرون کو قتل کر ڈالا تمام لوگوں کو تیغ کیا اور تمام شہر کو اجاڑ دیا اور اس لڑکی کو اپنے ہمراہ لے گیا اور اس سے نکاح کر لیا ۔ ایک رات جبکہ لڑکی نضیرہ اپنے بسترے پر لیٹی ہوئی تھی اسنے نیند نہ آ رہی تھی تلملا رہی تھی اور بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی تو سابور نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا شاید میرے بستر میں کچھ ہے جس سے مجھے نیند نہیں آ رہی ، شمع جلائی گئی بستر ٹٹولا گیا تو گل آس کی ایک بتی نکلی ۔ سابور اس نزاکت پر حیران رہ گیا کہ ایک اتنی چھوٹی سی پتی بستر میں ہونے پر اسے نیند نہیں آئی ؟ پوچھا تیرے والد کے ہاں تیرے لیے کیا ہوتا تھا ؟ اس نے کہا نرم ریشم کا بسترا تھا صرف باریک نرم ریشمی لباس تھا صرف نلیوں کا گودا کھایا کرتی تھی اور صرف انگوری خالص شراب پیتی تھی ۔ یہ انتظام میرے باپ نے میرے لیے کر رکھا تھا ۔ یہ تھی بھی ایسی کہ اس کی پنڈلی کا گودا تک باہر سے نظر آتا تھا ۔ ان باتوں سے سابور پر ایک اور رنگ چڑھا دیا اور اس نے کہا جس باپ نے تجھے اس طرح پالا پوسا اس کے ساتھ تو نے یہ سلوک کیا کہ میرے ہاتھوں اسے قتل کرایا اس کے مالک کو تاخت و تاراج کرایا پھر مجھے تجھ سے کیا امید رکھنی چاہیئے ؟ اللہ جانے میرے ساتھ تو کیا کرے ؟ اسی وقت حکم دیا کہ اس کے سر کے بال گھوڑے سے باندھ دیئے جائیں اور گھوڑے کو بیلگام چھوڑ دیا جائے ، چنانچہ یہی ہوا گھوڑا بد کا بھاگا اچھلنے کودنے لگا اور اس کی ٹاپوں سے زمین پر پچھاڑیں کھاتے ہوئے اس کے جسم کا چورا چورا ہو گیا ۔ چنانچہ اس واقعہ کو عرب شعراء نے نظم بھی کیا ہے ۔