لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ
تو اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دے، تاکہ اسے جلدی حاصل کرلے۔
حفظ قرآن، تلاوت و تفسیر کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ یہاں اللہ عزوجل اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دیتا ہے کہ فرشتے سے وحی کس طرح حاصل کریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اخذ کرنے میں بہت جلدی کرتے تھے اور قرأت میں فرشتے کے بالکل ساتھ ساتھ رہتے تھے ، پس اللہ عزوجل حکم فرماتا ہے کہ ’ جب فرشتہ وحی لے کر آئے آپ سنتے رہیں ، پھر جس ڈر سے آپ ایسا کرتے تھے اسی طرح اس کا واضح کرانا اور تفسیر اور بیان آپ سے کرانے کے ذمہ داری بھی ہم ہی پر ہے ‘ ۔ پس پہلی حالت یاد کرانا ، دوسری تلاوت کرانا ، تیسری تفسیر ، مضمون اور توضیح مطلب کرانا تینوں کی کفالت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ، جیسے اور جگہ ہے «لَا تَعْجَلْ بالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یٰقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ ۡ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا» ۱؎ (20-طہ:114) یعنی ’ جب تک تیرے پاس وحی پوری نہ آئے تو پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر ہم سے دعا مانگ کہ میرے رب میرے علم کو زیادہ کرتا رہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اسے تیرے سینے میں جمع کرنا اور اسے تجھ سے پڑھوانا ہمارا ذمہ ہے جب ہم اسے پڑھیں [ یعنی ہمارا نازل کردہ فرشتہ جب اسے تلاوت کرے تو ] تو سن لے جب وہ پڑھ چکے تب تو پڑھ ہماری مہربانی سے تجھے پورا یاد ہو گا اتنا ہی نہیں بلکہ حفظ کرانے تلاوت کرانے کے بعد ہم تجھے اس کی معنی مطالب تعین و توضیح کے ساتھ سمجھا دیں گے تاکہ ہماری اصلی مراد اور صاف شریعت سے تو پوری طرح آگاہ ہو جائے ‘ ۔ مسند میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے وحی کو دل میں اتارنے کی سخت تکلیف ہوتی تھی اس ڈر کے مارے کہ کہیں میں بھول نہ جاؤں فرشتے کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ ہلتے جاتے تھے چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی حدیث نے اپنے ہونٹ ہلا کر دکھایا کہ اس طرح اور ان کے شاگرد سعید رحمہ اللہ نے بھی اپنے استاد کی طرح ہلا کر اپنے شاگرد کو دکھائے اس پر یہ آیت اتری کہ ’ اتنی جلدی نہ کرو اور ہونٹ نہ ہلاؤ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہمارے سپرد ہے جب ہم اسے پڑھیں تو آپ سنئے اور چپ رہئے جبرائیل کے چلے جانے کے بعد انہی کی طرح ان کا پڑھایا ہوا پڑھنا بھی ہمارے سپرد ہے ‘ } ۔ بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے، ۱؎ (صحیح بخاری:50)