مِّمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا
اپنے گناہوں ہی کی وجہ سے وہ غرق کیے گئے، پس آگ میں داخل کیے گئے، پھر انھوں نے اللہ کے سوا اپنے لیے کوئی مدد کرنے والے نہ پائے۔
کثرت گناہ تباہی کو دعوت دیتا ہے «خَطِیئَاتِہِمْ» کی دوسری قرأت «خَطَایَاھُمْ» بھی ہے فرماتا ’ اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ لوگ ہلاک کر دیئے گئے ان کی سرکشی ، ضد اور ہٹ دھرمی ان کی مخالفت و دشمنی رسول حد سے گزر گئی تو انہیں پانی میں ڈبو دیا گیا ، اور یہاں سے آگ کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے اور کوئی نہ کھڑا ہوا جو انہیں ان عذابوں سے بچا سکتا ۔ ‘ جیسے فرمان ہے «قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ» ۱؎ (11-ھود:43) یعنی ’ آج کے دن عذاب اللہ سے کوئی نہیں بچا سکتا صرف وہی نجات یافتہ ہو گا جس پر اللہ رحم کرے ۔ ‘ نوح علیہ السلام ان بدنصیبوں کی اپنے قادر و ذوالجلال اللہ کی چوکھٹ پر اپنا ماتھا رکھ کر فریاد کرتے ہیں اور اس مالک سے ان پر آفت و عذاب نازل کرنے کی درخواست پیش کرتے ہیں کہ ” اللہ اب تو ان ناشکروں میں سے ایک کو بھی زمین پر چلتا پھرتا نہ چھوڑ ۔ “ اور یہی ہوا بھی کہ سارے کے سارے غرق کر دیئے گئے یہاں تک کہ نوح علیہ السلام کا سگا بیٹا جو باپ سے الگ رہا تھا وہ بھی نہ بچ سکا ، سمجھا تو یہ تھا کہ پانی میرا کیا بگاڑ لے گا میں کسی بڑے پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا لیکن وہ پانی تو نہ تھا ، وہ تو غضب الٰہی تھا ، وہ تو بد دعائے نوح تھا ، اس سے بھلا کون بچا سکتا تھا ؟ پانی نے اسے وہیں جا لیا اور اپنے باپ کے سامنے باتیں کرتے کرتے ڈوب گیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر طوفان نوح میں اللہ تعالیٰ کسی پر رحم کرتا تو اس کے لائق وہ عورت تھی جو پانی کو ابلتے اور برستے دیکھ کر اپنے بچے کو لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور پہاڑ پر چڑھ گئی جب پانی وہاں بھی آ گیا ہے تو بچے کو اٹھا کر اپنے مونڈھے پر بٹھا لیا جب پانی وہاں پہنچا تو اس نے بچے کو سر پر اٹھا لیا ، جب پانی سر تک جا چڑھا تو اپنے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سر سے بلند کر لیا لیکن آخر پانی وہاں تک جا پہنچا اور ماں بیٹا ڈوب گئے ، اگر اس دن زمین کے کافروں میں سے کوئی بھی قابل رحم ہوتا تو یہ عورت تھی مگر یہ بھی نہ بچ سکی نہ ہی بیٹے کو بچا سکی ۔ “ ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5985:منکر) یہ حدیث غریب ہے لیکن راوی اس کے سب ثقہ ہیں ۔ الغرض روئے زمین کے کافر غرق کر دیئے گئے ۔ صرف وہ باایمان ہستیاں باقی رہیں جو نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی کشتی میں تھیں اور نوح علیہ السلام نے انہیں اپنے ساتھ اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا ۔ چونکہ نوح علیہ السلام کو سخت تلخ اور دیرینہ تجربہ ہو چکا تھا اس لیے اپنی ناامیدی کو ظاہر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” یا الٰہی میری چاہت ہے کہ ان تمام کفار کو برباد کر دیا جائے ، ان میں سے جو بھی باقی بچ رہا وہی دوسروں کی گمراہی کا باعث بنے گا اور جو نسل اس کی پھیلے گی وہ بھی اسی جیسی بدکار اور کافر ہو گی ۔ “ ساتھ ہی اپنے لیے بخشش طلب کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں ” میرے رب ! مجھے بخش میرے والدین کو بخش اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں آ جائے اور ہو بھی وہ باایمان ۔ “ گھر سے مراد مسجد بھی لی ہے لیکن عام مراد یہی ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” مومن ہی کے ساتھ بیٹھو ، رہو ، سہو اور صرف پرہیزگار ہی تیرا کھانا کھائیں ۔ “ یہ حدیث ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے ، امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں صرف اسی اسناد سے یہ حدیث معروف ہے ۔ پھر اپنی دعا کو عام کرتے ہیں اور کہتے ہیں ” تمام ایماندار مرد و عورت کو بھی بخش خواہ زندہ ہوں خواہ مردہ ۔ “ اسی لیے مستحب ہے کہ ہر شخص اپنی دعا میں دوسرے مومنوں کو بھی شامل رکھے تاکہ نوح علیہ السلام کی اقتدأ بھی ہو اور ان احادیث پر بھی عمل ہو جائے جو اس بارے میں ہیں اور وہ دعائیں بھی آ جائیں جو منقول ہیں ۔ پھر دعا کے خاتمے پر کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ ان کافروں کو تو تباہی ، بربادی ، ہلاکت اور نقصان میں ہی بڑھاتا رہ ، دنیا و آخرت میں برباد ہی رہیں ۔ «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ نوح کی تفسیر بھی ختم ہو گئی ۔