قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا
اس نے کہا اے میرے رب! بلاشبہ میں نے اپنی قوم کو رات اور دن بلایا۔
نو سو سال صدا بصحرا کے بعد بھی ایک پیغمبرانہ کوشش یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ساڑھے نو سو سال تک کی لمبی مدت میں کس کس طرح نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا ، قوم نے کس کس طرح اعراض کیا ، کیسی کیسی تکلیفیں اللہ کے پیارے پیغمبر علیہ السلام کو پہنچائیں اور کس طرح اپنی ضد پر اڑ گئے ، تو نوح علیہ السلام بطور شکایت کے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ ” الٰہی میں نے تیرے حکم کی پوری طرح سرگرمی سے تعمیل کی ، تیرے فرمان عالیشان کے مطابق نہ دن کو دن سمجھا ، نہ رات کو رات ، بلکہ مسلسل ہر وقت انہیں راہ راست کی دعوت دیتا رہا لیکن کیا کروں کہ جس دل سوزی سے میں انہیں نیکی کی طرف بلاتا رہا وہ اسی سختی سے مجھ سے بھاگتے رہے حق سے روگردانی کرتے رہے ، یہاں تک ہوا کہ میں نے ان سے کہا آؤ رب کی سنو تاکہ رب تمہیں بخشے لیکن انہوں نے میرے ان الفاظ کا سننا بھی گوارا نہ کیا ، کان بند کر لیے ۔ “ یہی حال کفار قریش کا تھا کہ کلام اللہ کو سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے جیسے ارشاد ہے «وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:26) یعنی ’ کافرو نے کہا ، اس قرآن کو نہ سنو اور جب یہ پڑھا جاتا ہو تو شور غل کرو تاکہ تم غالب رہو ۔ ‘ قوم نوح نے جہاں اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالیں وہاں اپنے منہ میں کپڑوں سے چھپا لیے تاکہ وہ پہچانے بھی نہ جائیں اور نہ کچھ سنیں اپنے شرک و کفر پر ضد کے ساتھ اڑ گئے اور اتباع حق سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اس سے بےپرواہی کی اور اسے حقیر جان کر تکبر سے پیٹھ پھیر لی ۔ نوح علیہ السلام فرماتے ہیں ” عام لوگوں کے مجمع میں بھی میں نے انہیں کہا سنا با آواز بلند ان کے کان کھول دیئے اور بسا اوقات ایک ایک کو چپکے چپکے بھی سمجھایا غرض تمام جتن کر لیے کہ یوں نہیں یوں سمجھ جائیں اور اور یوں نہیں تو یوں راہ راست پر آ جائیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ کم از کم تم اپنی بدکاریوں سے توبہ ہی کر لو وہ اللہ غفار ہے ، ہر جھکنے والے کی طرف توجہ فرماتا ہے اور خواہ اس سے کیسے ہی بد سے بدتر اعمال سرزد ہوئے ہوں ایک آن میں معاف فرما دیتا ہے ، یہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی وہ تمہیں تمہارے استغفار کی وجہ سے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائے گا اور درد و دکھ سے بچا لے گا وہ تم پر خوب موسلا دھار بارش برسائے گا ۔“ یہ یاد رہے کہ قحط سالی کے موقعہ پر جب نماز استسقاء کے لیے مسلمان نکلیں تو مستحب ہے کہ اس نماز میں اس سورت کو پڑھیں ، اس کی ایک دلیل تو یہی آیت ہے دوسرے خلیفتہ المسلمین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فعل بھی یہی ہے ۔ آپ سے مروی ہے کہ بارش مانگنے کے لیے جب آپ نکلے تو منبر پر چڑھ کر آپ نے خوب استغفار کیا اور استغفار والی آیتوں کی تلاوت کی ، جن میں ایک آیت یہ «فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا» ۱؎ (71-نوح:10) بھی تھی ۔ پھر فرمانے لگے کہ بارش کو میں نے بارش کی تمام راہوں سے جو آسمان میں ہیں طلب کر لیا ہے یعنی وہ احکام ادا کئے ہیں ، جن سے اللہ بارش نازل فرمایا کرتا ہے ۔