سورة الملك - آیت 16

أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمھیں زمین میں دھنسادے، تو اچانک وہ حرکت کرنے لگے؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

وہ لا انتہا عفو و مغفرت کا مالک بھی اور گرفت پر قادر بھی ہے ان آیتوں میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے لطف و رحمت کا بیان فرما رہا ہے کہ ’ لوگوں کے کفر و شرک کی بناء پر وہ طرح طرح کے دنیوی عذاب پر بھی قادر ہے لیکن اس کا علم اور عفو ہے کہ وہ عذاب نہیں کرتا ‘ ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَابَّۃٍ وَّلٰکِنْ یٰؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مٰسَمًّی فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا» ۱؎ (35-فاطر:45) الخ ، یعنی ’ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی برائیوں پر پکڑ لیتا تو روئے زمین پر کسی کو باقی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مقررہ وقت تک انہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ، جب ان کا وہ وقت آ جائے گا تو اللہ تعالیٰ ان مجرموں سے آپ سمجھ لے گا ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا کہ ’ زمین ادھر ادھر ہو جاتی ، ہلنے اور کانپنے لگ جاتی اور یہ سارے کے سارے اس میں دھنسا دیئے جاتے ، یا ان پر ایسی آندھی بھیج دی جاتی جس میں پتھر ہوتے اور ان کے دماغ توڑ دیئے جاتے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَفَاَمِنْتُمْ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَکُمْ وَکِیْلًا» ۱؎ (17-الإسراء:68) الخ ، یعنی ’ کیا تم نڈر ہو گئے ہو کہ زمین کے کسی کنارے میں تم دھنس جاؤ یا تم پر وہ پتھر برسائے اور کوئی نہ ہو جو تمہاری وکالت کر سکے ‘ ۔ یہاں بھی فرمان ہے کہ ’ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری دھمکیوں کو نہ ماننے کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ تم خود دیکھ لو کہ پہلے لوگوں نے بھی نہ مانا اور انکار کر کے میری باتوں کی تکذیب کی تو ان کا کس قدر برا اور عبرتناک انجام ہوا ۔ کیا تم میری قدرتوں کا روزمرہ کا یہ مشاہدہ نہیں کر رہے کہ پرند تمہارے سروں پر اڑتے پھرتے ہیں کبھی دونوں پروں سے کبھی کسی کو روک کر ، پھر کیا میرے سوا کوئی اور انہیں تھامے ہوئے ہے ؟ میں نے ہواؤں کو مسخر کر دیا ہے اور یہ معلق اڑتے پھرتے یہیں یہ بھی میرا لطف و کرم اور رحمت و نعمت ہے ۔ مخلوقات کی حاجتیں ضرورتیں ان کی اصلاح اور بہتری کا نگراں اور کفیل میں ہی ہوں ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَاءِ» ۱؎ (16-النحل:79) الخ ، ’ کیا انہوں نے ان پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر ہیں جن کا تھامنے والا سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں یقیناً اس میں ایمانداروں کے لیے بڑی بڑی نشانیاں ہیں ‘ ۔