سورة المنافقون - آیت 1

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو یقیناً اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ تو یقیناً اس کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

منافقین کی قسمیں کھانا اللہ تعالیٰ منافقوں کے نفاق کو ظاہر کرتا ہے کہ ’ گو یہ تیرے پاس آ کر قسمیں کھا کھا کر اپنے اسلام کا اظہار کرتے ہیں تیری رسالت کا اقرار کرتے ہیں مگر دراصل دل کے کھوٹے ہیں ، فی الواقع آپ رسول اللہ بھی ہیں ، ان کا یہ قول بھی ہے مگر چونکہ دل میں اس کا کوئی اثر نہیں ، لہٰذا یہ جھوٹے ہیں ۔ یہ تجھے رسول اللہ مانتے ہیں ، اس بارے میں اگر یہ سچے ہونے کے لیے قسمیں بھی کھائیں لیکن آپ یقین نہ کیجئے ۔ یہ قسمیں تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے یہ تو اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا ایک ذریعہ ہیں ‘ ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان سے ہوشیار رہیں کہیں انہیں سچا ایماندار سمجھ کر کسی بات میں ان کی تقلید نہ کرنے لگیں کہ یہ اسلام کے رنگ میں تم کو کفر کا ارتکاب کرا دیں ، یہ بداعمال لوگ اللہ کی راہ سے دور ہیں ۔ ضحاک رحمہ اللہ کی قرأت میں «أَیْمَانَہُمْ» ‏‏‏‏الف کی زیر کے ساتھ ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے اپنی ظاہری تصدیق کو اپنے لیے تقیہ بنا لیا ہے کہ قتل سے اور حکم کفر سے دنیا میں بچ جائیں ۔ یہ نفاق ان کے دلوں میں اس گناہ کی شومی کے باعث رچ گیا ہے کہ ایمان سے پھر کر کفر کی طرف اور ہدایت سے ہٹ کر ضلالت کی جانب آ گئے ہیں ، اب دلوں پر مہر الٰہی لگ چکی ہے اور بات کی تہہ کو پہنچنے کی قابلیت سلب ہو چکی ہے ، بظاہر تو خوش رو ، خوش گو ہیں اس فصاحت اور بلاغت سے گفتگو کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرے کے دل کو مائل کر لیں ، لیکن باطن میں بڑے کھوٹے بڑے کمزور دل والے نامرد اور بدنیت ہیں ، جہاں کوئی بھی واقعہ رونما ہوا اور سمجھ بیٹھے کہ ہائے مرے ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏أَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَیْتَہُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ تَدُورُ أَعْیُنُہُمْ کَالَّذِی یُغْشَیٰ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ» ۱؎ (33-الأحزاب:19) الخ ، ’ تمہارے مقابلہ میں بخل کرتے ہیں ، پھر جس وقت خوف ہوتا ہے تو تمہاری طرف اس طرح آنکھیں پھیر پھیر کر دیکھتے ہیں گویا کسی شخص پر موت کی بیہوشی طاری ہے ، پھر جب خوف چلا جاتا ہے تو تمہیں اپنی بدکلامی سے ایذاء دیتے ہیں اور مال غنیمت کی حرص میں نہ کہنے کی باتیں کہہ گزرتے ہیں یہ بے ایمان ہیں ، ان کے اعمال غارت ہیں ، اللہ پر یہ امر نہایت ہی آسان ہے ‘ ۔ پس ان کی یہ آوازیں خالی پیٹ کے ڈھول کی بلند بانگ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں یہی تمہارے دشمن ہیں ان کی چکنی چپڑی باتوں اور ثقہ اور مسکین صورتوں کے دھوکے میں نہ آ جانا ، اللہ انہیں برباد کرے ذرا سوچیں تو کیوں ہدایت کو چھوڑ کر بے راہی پر چل رہے ہیں ؟