وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو، حالانکہ یقیناً تم جانتے ہو کہ بے شک میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ کلیم اللہ موسیٰ بن عمران نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم میری رسالت کی سچائی جانتے ہو پھر کیوں میرے درپے آزار ہو رہے ہو ؟ ‘ اس میں گویا ایک طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جاتی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ستائے جاتے تو فرماتے : ” «رَحْمَۃ اللَّہ عَلَی مُوسَیٰ» اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائے ، وہ اس سے زیادہ ستائے گئے لیکن پھر بھی صابر رہے۔“ ۱؎ (صحیح بخاری:4335) اور ساتھ ہی اس میں مومنوں کو ادب سکھایا جا رہا ہے کہ وہ اللہ کے نبی کو ایذاء نہ پہنچائیں ایسا نہ کریں جس سے آپ کا دل دکھتا ہو ، جیسے اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ آذَوْا مُوسَیٰ فَبَرَّأَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَکَانَ عِندَ اللہِ وَجِیہًا» ۱؎ (33-الأحزاب:69) ’ ایمان والو تم ایسے نہ ہونا جیسے موسیٰ کو ایذاء دینے والے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ذی عزت بندے کو اس کے بہتانوں سے پاک کیا ۔ ‘ پس جبکہ یہ لوگ علم کے باوجود اتباع حق سے ہٹ گئے اور ٹیڑھے چلنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دل ہدایت سے ہٹا دیئے شک و حیرت ان میں سما گئی ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:110) یعنی ’ ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے جس طرح یہ ہماری آیتوں پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں چھوڑ دیں گے جس میں وہ سرگرداں رہیں گے ‘ اور جگہ ہے «وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِیرًا» ۱؎ (4-النساء:115) ’ جو رسول کی مخالفت کرے ہدایت ظاہر ہو جانے کے بعد اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی دوسرے کی تابعداری کرے ہم اسے اسی طرف متوجہ کریں گے جس طرف وہ متوجہ ہوا ہے اور بالاخر اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ بہت بری جگہ ہے۔ ‘ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فاسقوں کی رہبری نہیں کرتا ، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا خطبہ بیان ہوتا ہے جو آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں پڑھا تھا جس میں فرمایا تھا کہ ” توراۃ میں میری خوشخبری دی گئی تھی اور اب میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیش گوئی سناتا ہوں جو نبی امی ، عربی مکی ، احمد مجتبیٰ ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔“ پس عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء اور مرسلین کے خاتم ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو کوئی نبی آئے نہ رسول ، نبوت و رسالت سب آپ پر من کل الوجوہ ختم ہو گئی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام صحیح بخاری میں ایک نہایت پاکیزہ حدیث وارد ہوئی ہے جس میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” «إِنَّ لِی أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّد وَأَنَا أَحْمَد وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِی یَمْحُو اللَّہ بِہِ الْکُفْر وَأَنَا الْحَاشِر الَّذِی یُحْشَر النَّاس عَلَی قَدَمِی وَأَنَا الْعَاقِب» میرے بہت سے نام ہیں محمد ، احمد ، ماحی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کفر کو مٹا دیا اور میں حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کا حشر کیا جائے گا اور میں عاقب ہوں “ ، یہ حدیث مسلم شریف میں بھی ہے ۔} ۱؎ (صحیح بخاری:4896) ابوداؤد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اپنے بہت سے نام بیان فرمائے جو ہمیں محفوظ رہے ان میں سے چند یہ ہیں ، فرمایا : ” «أَنَا مُحَمَّد وَأَنَا أَحْمَد وَالْحَاشِر وَالْمُقَفِّی وَنَبِیّ الرَّحْمَۃ وَالتَّوْبَۃ وَالْمَلْحَمَۃ» میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں حاشر ہوں ، میں مقفی ہوں ، میں نبی الرحمتہ ہوں ، میں نبی التوبہ ہوں ، میں نبی الْمَلْحَمَۃ ہوں “ ، یہ حدیث بھی صحیح مسلم شریف میں ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:2355) قرآن کریم میں ہے «الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الْأُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنجِیلِ» ۱؎ (7-الأعراف:157) ’ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول نبی امی کی جنہیں اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں توراۃ میں بھی اور انجیل میں بھی ۔ ‘ اور جگہ فرمان ہے «وَإِذْ أَخَذَ اللَّہ مِیثَاق النَّبِیِّینَ لَمَا آتَیْتُکُمْ مِنْ کِتَاب وَحِکْمَۃ ثُمَّ جَاءَکُمْ رَسُول مُصَدِّق لِمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلْتَنْصُرُنَّہُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَی ذَلِکُمْ إِصْرِی قَالُوا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوا وَأَنَا مَعَکُمْ مِنْ الشَّاہِدِینَ» ۱؎ (3-آلعمران:81) الخ ، ’ اللہ تعالیٰ نے جب نبیوں سے عہد لیا کہ جب کبھی میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس میرا رسول آئے جو اسے سچ کہتا ہو جو تمہارے ساتھ ہے تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے اور اس کی ضرور مدد کرو گے کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میرا عہد لیتے ہو ؟ سب نے کہا ہمیں اقرار ہے فرمایا بس گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔‘ ہر نبی سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا عہد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کوئی نبی اللہ تعالیٰ نے ایسا مبعوث نہیں فرمایا جس سے یہ اقرار نہ لیا ہو کہ ان کی زندگی میں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے جائیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے بلکہ ہر نبی سے یہ وعدہ بھی لیا جاتا رہا کہ وہ اپنی اپنی امت سے بھی عہد لے لیں ۔ ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ ہمیں اپنی خبر سنایئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور عیسیٰ علیہ السلام کی خوشخبری ہوں ، میری والدہ کا جب پاؤں بھاری ہوا تو خواب میں دیکھا کہ گویا ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات چمک اٹھے۔ “ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:2057) اس کی سند عمدہ ہے اور دوسری سندوں سے اس کے شواہد بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم الانبیاء تھا درآنحالیکہ آدم علیہ السلام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے ۔ میں تمہیں اس کی ابتداء سناؤں ۔ میں اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کی دعا ، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی ماں کا خواب ہوں ۔ انبیاء کی والدہ اسی طرح خواب دکھائی جاتی ہیں۔ } ۱؎ (مسند احمد:127/4:صحیح لغیرہ) مسند احمد میں اور سند سے بھی اسی کے قریب روایت مروی ہے۔ ۱؎ (مسند احمد:262/5:صحیح لغیرہ) نجاشی کا دربار مسند کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجاشی بادشاہ حبشہ کے ہاں بھیج دیا تھا ہم تقریباً اسی آدمی تھے ۔ ہم میں عبداللہ بن مسعود ، جعفر ، عبداللہ بن رواحہ ، عثمان بن مطعون ، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہم وغیرہ بھی تھے ۔ ہمارے یہاں پہنچنے پر قریش نے یہ خبر پا کر ہمارے پیچھے اپنی طرف سے بادشاہ کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید ان کے ساتھ دربار شاہی کے لیے تحفے بھی بھیجے ، جب یہ آئے تو انہوں نے بادشاہ کے سامنے سجدہ کیا پھر دائیں بائیں گھوم کر بیٹھ گئے ، پھر اپنی درخواست پیش کی کہ ہمارے کنبے قبیلے کے چند لوگ ہمارے دین کو چھوڑ کر ہم سے بھاگ کر آپ کے ملک میں چلے آئے ہیں ہماری قوم نے ہمیں اس لیے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیجئیے ۔“ نجاشی نے پوچھا وہ کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا یہیں اسی شہر میں ہیں ، حکم دیا کہ انہیں حاضر کرو ، چنانچہ یہ مسلمان صحابہ رضی اللہ عنہم دربار میں آئے ان کے خطیب اس وقت جعفر رضی اللہ عنہ تھے باقی لوگ ان کے ماتحت تھے ، یہ جب آئے تو انہوں نے سلام تو کیا لیکن سجدہ نہیں کیا درباریوں نے کہا تم بادشاہ کے سامنے سجدہ کیوں نہیں کرتے ؟ جواب ملا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کرتے ، پوچھا گیا کیوں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول ہماری طرف بھیجا اور اس رسول نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہ کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نمازیں پڑھتے رہیں زکوٰۃ ادا کرتے رہیں ۔ اب عمرو بن العاص سے نہ رہا گیا کہ ایسا نہ ہو ان باتوں کا اثر بادشاہ پر پڑے درباریوں اور بادشاہ کو بھڑکانے کے لیے وہ بیچ میں بول پڑا کہ حضور ان کے اعتقاد عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے بارے میں آپ لوگوں سے بالکل مختلف ہیں ، اس پر بادشاہ نے پوچھا : بتاؤ تم عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہمارا عقیدہ اس بارے میں وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ہمیں تعلیم فرمایا کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں ، روح اللہ ہیں ، جس روح کو اللہ تعالیٰ کنواری مریم بتول کی طرف القا کیا جو کنواری تھیں ، جنہیں کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا ، نہ انہیں بچہ ہونے کا کوئی موقعہ تھا۔ بادشاہ نے یہ سن کر زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا : اے حبشہ کے لوگو اور اے واعظو عالمو اور درویشو ان کا اور ہمارا اس کے بارے میں ایک ہی عقیدہ ہے اللہ کی قسم ان کے اور ہمارے عقیدے میں اس تنکے جتنا بھی فرق نہیں ۔ اے جماعت مہاجرین ! تمہیں مرحبا ہو اور اس رسول کو بھی مرحبا ہو جن کے پاس سے تم آئے ہو ، میری گواہی ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں ، یہ وہی ہیں جن کی پیش گوئی ہم نے انجیل میں پڑھی ہے اور یہ وہی ہیں جن کی بشارت ہمارے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے میری طرف سے تمہیں عام اجازت ہے جہاں چاہو رہو سہو ، اللہ کی قسم اگر ملک کی اس جھنجٹ سے میں آزاد ہوتا تو میں یقیناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں اٹھاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا اور آپ کو وضو کراتا ، اتنا کہہ کر حکم دیا کہ یہ دونوں قریشی جو تحفہ لے کر آئے ہیں وہ انہیں اپس کر دیا جائے ۔ ان مہاجرین کرام میں سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو جلد ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ملے ، جنگ بدر میں بھی آپ نے شرکت کی ۔ اس شاہ حبشہ کے انتقال کی خبر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی ۔ ۱؎ (مسند احمد:461/1:ضعیف) یہ پورا واقعہ سیدنا جعفر اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:201/1:ضعیف) تفسیری موضوع سے چونکہ یہ الگ چیز ہے اس لیے ہم نے اسے یہاں مختصراً وارد کر دیا مزید تفصیل سیرت کی کتابوں میں ملاحظہ ہو ۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ عالی جناب حضور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت اگلے انبیاء کرام علیہم السلام برابر پشین گوئیاں کرتے رہے اور اپنی امت کو اپنی کتاب میں سے آپ کی صفتیں سناتے رہے اور آپ کی اتباع اور نصرت کا انہیں حکم کرتے رہے ، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی شہرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعا کے بعد ہوئی جو تمام انبیاء کے باپ تھے اسی طرح مزید شہرت کا باعث عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوئی جس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کے سوال پر اپنے امر نبوت کی نسبت دعا خلیل اللہ اور نوید مسیح کی طرف کی ہے ، اس سے یہی مراد ہے ان دونوں کے ساتھ آپ کا اپنی والدہ محترمہ کے خواب کا ذکر کرنا اس لیے تھا کہ اہل مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شروع شہرت کا باعث یہ خواب تھا ، اللہ تعالیٰ آپ پر بےشمار درود و رحمت بھیجے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ باوجود اس قدر شہرت اور باوجود انبیاء کی متواتر پیش گوئیوں کے بھی جب آپ روشن دلیلیں لے کر آئے تو مخالفین نے اور کافروں نے کہہ دیا کہ یہ تو صاف صاف جاود ہے ۔‘