يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقیناً انھوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمھارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو، جو تمھارا رب ہے، اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو۔ تم ان کی طرف چھپا کر دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں زیادہ جاننے والا ہوں جو کچھ تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرے تو یقیناً وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
حاطب رضی اللہ عنہ کا قصہ سیدنا حاطب بن ابوبلتہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں ، واقعہ یہ ہوا کہ حاطب رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا ، اب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہو جائے ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو نہ پہنچیں ، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی ، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں ، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہو چکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کر لیا گیا ، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آ چکا ہے ۔ مسند احمد میں ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اور زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یہاں لے آؤ ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہو گئے ، روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر ، اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ، ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقیناً خط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے ، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے پیش کر دیا ، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حاطب نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : حاطب ! یہ کیا حرکت ہے ؟ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ ! جلدی نہ کیجئے ، میری بھی سن لیجئے ، میں قریشیوں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا ، پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لیے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہو جائے ۔ یا رسول اللہ ! میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ ، اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں ، نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں ، بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو “ ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمہیں کیا معلوم نہیں ؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا “ ، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے ۔(صحیح بخاری:4274) صحیح بخاری شریف کتاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اسی بارے میں آیت «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّی وَعَدُوَّکُم أَولِیاءَ تُلقونَ إِلَیہِم بِالمَوَدَّۃِ وَقَد کَفَروا بِما جاءَکُم مِنَ الحَقِّ یُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِیّاکُم أَن تُؤمِنوا بِ اللہِ رَبِّکُم إِن کُنتُم خَرَجتُم جِہادًا فی سَبیلی وَابتِغاءَ مَرضاتی تُسِرّونَ إِلَیہِم بِالمَوَدَّۃِ وَأَنا أَعلَمُ بِما أَخفَیتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن یَفعَلہُ مِنکُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبیلِ» (60-الممتحنۃ:1) ، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کا ہے یا حدیث میں ہے ، امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سفیان رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے ؟ تو سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا ۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے نام کے بدلے سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہ کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس عورت کے پاس حاطب کا خط ہے ، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہر چند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آ گئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عورت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور ، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے ، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پختہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا : اس نے اللہ ، اس کے رسول کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئیے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گزر چکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کر دی ہے جسے سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی کامل علم ہے ، (صحیح بخاری:6939) یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں ، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہ نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ناممکن ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بول سکتے ہیں ، نہ ہم نے جھوٹ کہا ، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا : تمہیں اللہ کا خوف نہیں ؟ کیا تم مسلمان نہیں ؟ ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا : یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی ، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا ، اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی ، سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطب کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے ، آسمان سے اس کی خبر اے اللہ کے رسول ! کے پاس آئی تھی ، بنو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی ، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیر لیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا ، اس روایت میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا ، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں ابراہیم کے قصہ «قَد کانَت لَکُم أُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ فی إِبراہیمَ وَالَّذینَ مَعَہُ إِذ قالوا لِقَومِہِم إِنّا بُرَآءُ مِنکُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللہِ کَفَرنا بِکُم وَبَدا بَینَنا وَبَینَکُمُ العَداوَۃُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّیٰ تُؤمِنوا بِ اللہِ وَحدَہُ إِلّا قَولَ إِبراہیمَ لِأَبیہِ لَأَستَغفِرَنَّ لَکَ وَما أَملِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِن شَیءٍ رَبَّنا عَلَیکَ تَوَکَّلنا وَإِلَیکَ أَنَبنا وَإِلَیکَ المَصیرُ» (60-الممتحنۃ:4) ، کے ختم تک اتریں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے دیئے تھے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خط کے حاصل کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی ۔ مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو ! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں ، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے «یا أَیٰہَا الَّذینَ آمَنوا لا تَتَّخِذُوا الیَہودَ وَالنَّصاریٰ أَولِیاءَ بَعضُہُم أَولِیاءُ بَعضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِنکُم فَإِنَّہُ مِنہُم إِنَّ اللہَ لا یَہدِی القَومَ الظّالِمینَ» (5-المائدۃ:52) ، اے ایماندارو ! یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے موالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہو گا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ ہُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللہَ إِن کُنتُم مٰؤْمِنِینَ» ۱؎ (5-المائدہ:57) مسلمانو ! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِینَ ۚ أَتُرِیدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلہِ عَلَیْکُمْ سُلْطَانًا مٰبِینًا» (4-النساء:144) مسلمانو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کر لو ۔ ایک اور جگہ فرمایا «لا یَتَّخِذِ المُؤمِنونَ الکافِرینَ أَولِیاءَ مِن دونِ المُؤمِنینَ وَمَن یَفعَل ذٰلِکَ فَلَیسَ مِنَ اللہِ فی شَیءٍ إِلّا أَن تَتَّقوا مِنہُم تُقاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفسَہُ وَإِلَی اللہِ المَصیرُ» (3-آل عمران:28) ’ مسلمانوں کو چاہیئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستیاں نہ کریں جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے اور اللہ کی طرف ہی تم کو لوٹ کر جانا ہے ‘ ، اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہو گیا تھا ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں ، فرمایا : ” ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آ گئی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کر دیا ، غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کر دیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو گیا “ } ۔ (مسند احمد:407/5:ضعیف) پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں موّدت و محبت رکھتے ہو ؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداریِ رسول ان پر گراں گزرتی تھی ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَمَا نَقَمُوا مِنْہُمْ إِلَّا أَن یُؤْمِنُوا بِ اللہِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» (85-البروج:8) یعنی ’ مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِم بِغَیْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبٰنَا اللہُ» (22-الحج:40) ’ یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ‘ ۔ پھر فرماتا ہے ’ اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضا مندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو ، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو ؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے ؟ جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے ، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں ‘ ۔ بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا ۔ تم نہیں دیکھ رہے ؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے ، اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں ، نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں ، جو ان کے امکان میں ہو گا وہ کر گزریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کر دیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنا لیں ، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرونی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے ، پھر کیا اندھیر ہے ؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں خود کانٹے بو رہے ہو ، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کر دیں ۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی ، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہے ، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے ، نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے ، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا ، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کہاں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جہنم میں “ ، جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا : ” «إِنَّ أَبِی وَأَبَاک فِی النَّار» سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں “ ۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابوداؤد میں بھی ہے ۔ (صحیح مسلم:203)