سورة المجادلة - آیت 1

قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یقیناً اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 { سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : اللہ تعالیٰ کی ذات حمد و ثناء کے لائق ہے جس کے سننے نے تمام آوازوں کو گھیر رکھا ہے ، یہ شکایت کرنے والی خاتون آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح چپکے چپکے باتیں کر رہی تھیں کہ باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میں مطلقاً نہ سن سکی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس پوشیدہ آواز کو بھی سن لیا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7386) اور روایت میں آپ کا یہ فرمان اس طرح منقول ہے کہ بابرکت ہے وہ اللہ جو ہر اونچی نیچی آواز کو سنتا ہے ، یہ شکایت کرنے والی بی بی صاحبہ سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو اس طرح سرگوشیاں کر رہی تھیں کہ کوئی لفظ تو کان تک پہنچ جاتا تھا ورنہ اکثر باتیں باوجود اسی گھر میں موجود ہونے کے میرے کانوں تک نہیں پہنچتی تھیں ۔ اپنے میاں کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا کہ یا رسول اللہ ! میری جوانی تو ان کے ساتھ کٹی ، بچے ان سے ہوئے ، اب جبکہ میں بڑھیا ہو گئی ، بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہی ، تو میرے میاں نے مجھ سے ظہار کر لیا ، اے اللہ میں تیرے سامنے اپنے اس دکھڑے کا رونا روتی ہوں ، ابھی یہ بی بی صاحبہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر اترے ، ان کے خاوند کا نام سیدنا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ تھا ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:33727:صحیح) [ ابن ابی حاتم ] انہیں بھی کچھ جنون سا ہو جاتا تھا اس حالت میں اپنی بیوی صاحبہ سے ظہار کر لیتے پھر جب اچھے ہو جاتے تو گویا کچھ کہا ہی نہ تھا ، یہ بی بی صاحبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھنے اور اللہ کے سامنے اپنی التجا بیان کرنے کو آئیں تھیں جس پر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2219،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یزید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں اور لوگوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ ایک عورت نے آواز دے کر ٹھہرا لیا ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فوراً ٹھہر گئے اور ان کے پاس جا کر توجہ اور ادب سے سر جھکائے ان کی باتیں سننے لگے ، جب وہ اپنی فرمائش کی تعمیل کرا چکیں اور خود لوٹ گئیں تب امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ بھی واپس ہمارے پاس آئے ، ایک شخص نے کہا : امیر المؤمنین ایک بڑھیا کے کہنے سے آپ رک گئے اور اتنے آدمیوں کو آپ کی وجہ سے اب تک رکنا پڑا ، آپ نے فرمایا : افسوس ! جانتے بھی ہو یہ کون تھیں ؟ اس نے کہا : نہیں ، فرمایا : یہ وہ عورت ہیں جن کی شکایت اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر سنی یہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللہ عنہا ہیں اگر یہ آج صبح سے شام چھوڑ رات کر دیتیں اور مجھ سے کچھ فرماتی رہتیں تو بھی میں ان کی خدمت سے نہ ٹلتا ، ہاں نماز کے وقت نماز ادا کر لیتا اور پھر کمربستہ خدمت کیلئے حاضر ہو جاتا [ ابن ابی حاتم ] اس کی سند منقطع ہے اور دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ، ایک روایت میں ہے کہ یہ سیدہ خولہ بن صامت رضی اللہ عنہا تھیں اور ان کی والدہ کا نام سیدہ معاذہ رضی اللہ عنہا تھا جن کے بارے میں آیت «وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصٰنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا» ۱؎ (24-النور:33) نازل ہوئی تھی ، لیکن ٹھیک بات یہ ہے کہ خولہ رضی اللہ عنہا اوس بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو ۔