سورة الرحمن - آیت 56

فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ہیں، جنھیں ان سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگا یا ہے اور نہ کسی جن ّنے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

حوروں کے اوصاف چونکہ فروش کا بیان ہوا تھا تو ساتھ ہی فرمایا کہ ان فروش پر ان کے ساتھ ان کی بیویاں ہوں گی، جو عفیفہ، پاکدامن، شرمیلی نگاہوں والی ہوں گی اپنے خاوندوں کے سوا کسی پر نظریں نہ ڈالیں گی اور ان کے خاوند بھی ان پر سو جان سے مائل ہوں گے۔ یہ بھی جنت کی کسی چیز کو اپنے ان مومن خاوندوں سے بہتر نہ پائیں گی۔ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ یہ حوریں اپنے خاوندوں سے کہیں گی اللہ کی قسم ساری جنت میں میرے لیے تم سے بہتر کوئی چیز نہیں، اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے دل میں جنت کی کسی چیز کی خواہش و محبت اتنی نہیں جتنی آپ کی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے آپ کو میرے حصے میں کر دیا اور مجھے آپ کی خدمت کا شرف بخشا۔ یہ حوریں کنواری اچھوتی نوجوان ہوں گی ان جنتیوں سے پہلے ان کے پاک جسم کو کسی انس و جن کا ہاتھ بھی نہ لگا۔ یہ آیت بھی مومن جنوں کے جنت میں جانے کی دلیل ہے۔ ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ کیا مومن جن بھی جنت میں جائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں اور جنیہ عورتوں سے ان کے نکاح ہوں گے جیسے انسان کے انسان عورتوں سے۔ پھر یہی آیتیں تلاوت کیں پھر ان حوروں کی تعریف بیان ہو رہی ہے کہ وہ اپنی صفائی خوبی اور حسن میں ایسی ہو گی جیسے یاقوت و مرجان، یاقوت سے صفائی میں تشبیہ دی اور مرجان سے بیاض میں، پس مرجان سے مراد یہاں لؤلؤ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ” اہل جنت کی بیویوں میں سے ہر ایک ایسی ہے کہ ان کی پنڈلی کی سفیدی ستر ستر حلوں کے پہننے کے بعد بھی نظر آتی ہے یہاں تک کہ اندر کا گودا بھی“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «کَاَنَّہُنَّ الْیَاقُوْتُ وَالْمَرْجَانُ» (55- الرحمن:58) پڑھی اور فرمایا : ” دیکھو یاقوت ایک پتھر ہے لیکن قدرت نے اس کی صفائی اور جوت ایسی رکھی ہے کہ اس کے بیچ میں دھاگہ پرو دو تو باہر سے نظر آتا ہے “ (ابن ابی حاتم) یہ روایت ترمذی میں بھی موقوفاً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور امام ترمذی اس کو زیادہ صحیح بتاتے ہیں۔ (سنن ترمذی:2533،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند احمد میں ہے پیغمبر مدنی احمد مجتبیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر اہل جنت کی دو بیویاں اس صفت کی ہوں گی کہ ستر ستر حلے پہن لینے کے بعد بھی ان کی پنڈلیوں کی جھلک نمودار رہے گی بلکہ اندر کا گودا بھی بوجہ صفائی کے دکھائی دے گا۔ (مسند احمد:34/2) صحیح مسلم میں ہے کہ { یا تو فخر کے طور پر یا مذاکراہ کے طور پر یہ بحث چھڑ گئی کہ جنت میں عورتیں زیادہ ہوں گی یا مرد؟ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا؟ کہ پہلی جماعت جو جنت میں جائے گی وہ چاند جیسی صورتوں والی ہو گی ان کے پیچھے جو جماعت ہو گی وہ آسمان کے بہترین چمکیلے تاروں جیسے چہروں والی ہو گی۔ ان میں سے ہر شخص کی دو بیویاں ایسی ہوں گی جن کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا اور جنت میں کوئی بغیر بیوی کے نہ ہو گا۔ } (صحیح مسلم:2834-14) اس حدیث کی اصل بخاری میں بھی ہے- مسند احمد میں ہے { نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی راہ کی صبح اور شام ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے سب سے بہتر ہے۔ جنت میں جو جگہ ملے گی اس میں سے ایک کمان یا ایک کوڑے کے برابر کی جگہ ساری دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے افضل ہے ، اگر جنت کی عورتوں میں سے ایک عورت دنیا میں جھانک لے تو زمین و آسمان کو جگمگا دے اور خوشبو سے تمام عالم مہک اٹھے۔ ان کے سر کا دوپٹہ بھی دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے گراں ہے، } صحیح بخاری میں یہ حدیث بھی ہے- (صحیح بخاری:2796) پھر ارشاد ہے کہ جس نے دنیا میں نیکی کی اس کا بدلہ آخرت میں سلوک و احسان کے سوا اور کچھ نہیں، جیسے ارشاد ہے «‏‏‏‏لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ» (10-یونس:26) نیکی کرنے والے کے لیے نیکی ہے اور زیادتی یعنی جنت اور دیدار باری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کر کے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے پوچھا : ” جانتے ہو تمہارے رب نے کیا کہا؟ “ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول کو ہی علم ہے ۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں جس پر اپنی توحید کا انعام دنیا میں کروں اس کا بدلہ آخرت میں جنت ہے (بغوی فی التفسیر:41/251،ضعیف) اور چونکہ یہ بھی ایک عظیم الشان نعمت ہے جو دراصل کسی عمل کے بدلے نہیں بلکہ صرف اسی کا احسان اور فضل و کرم ہے اس لیے اس کے بعد ہی فرمایا اب تم میری کس کس نعمت سے لاپرواہی برتو گے ؟ رب کے مقام سے ڈرنے والے کی بشارت کے متعلق ترمذی شریف کی یہ حدیث بھی خیال میں رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو ڈرے گا وہ رات کے وقت ہی کوچ کرے گا اور جو اندھیری رات میں چل پڑا وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا خبردار ہو جاؤ اللہ کا سودا بہت گراں ہے یاد رکھو! وہ سودا جنت ہے، “ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو غریب بتاتے ہیں } (سنن ترمذی:2450،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے منبر پر وعظ بیان فرماتے ہوئے سنا کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «‏‏‏‏وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ» ‏‏‏‏ (55-الرحمن:46) پڑھی تو میں نے کہا اگرچہ زنا کیا ہو؟ اگرچہ چوری کی ہو؟ باقی حدیث اوپر گزر چکی ہے ۔