يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔
محبت و مودت کا آفاقی اصول محبت و مودت کا آفاقی اصول اللہ تعالیٰ اپنے تقوے کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے ، پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے ، ان کی بیوی یعنی حواء علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا ، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حواء کو پیدا کیا ، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لیے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے ۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو ، صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3331) پھر فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حواء سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے جن کی قسمیں ، صفتیں ، رنگ روپ ، بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے ، جس طرح یہ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیلا دیا ، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت ، عبادت بجا لاتے رہو ، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو ، مثلاً یہ کہنا کہ میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:519/7) اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو ، ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:518/7) اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی ، نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:519/7-522) «ارحام» بھی ایک قرأت میں ہے یعنی اللہ کے نام پر اور رشتے کے واسطے سے ، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام احوال اور اعمال سے واقف ہے خوب دیکھ بھال رہا ہے ، جیسے اور جگہ ہے : «وَ اللہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَہِیدٌ» ۱؎ (85-البروج:9) یعنی ’ اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے ‘ ، صحیح حدیث میں ہے اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے ، ۱؎ (صحیح بخاری:50) مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے ، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو ، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت «یَا أَیٰہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللہَ إِنَّ اللہَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ (59-الحشر:18) کی تلاوت کی ، پھر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لیے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی ۱؎ (صحیح مسلم:1017) یہ حدیث ، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے ۱؎ (سنن ابوداود:2118،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی «اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ہے ۔