يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہوجاؤ۔
فاسق کی خبر پر اعتماد نہ کرو اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو ، جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہو جائے کوئی حرکت نہ کرو ، ممکن ہے کہ کسی فاسق شخص نے کوئی جھوٹی بات کہہ دی ہو یا خود اس سے غلطی ہوئی ہو اور تم اس کی خبر کے مطابق کوئی کام کر گزرو تو اصل اس کی پیروی ہو گی اور مفسد لوگوں کی پیروی حرام ہے ۔ اسی آیت کو دلیل بنا کر بعض محدثین کرام نے اس شخص کی روایت کو بھی غیر معتبر بتایا ہے جس کا حال نہ معلوم ہو اس لیے کہ بہت ممکن ہے یہ شخص فی الواقع فاسق ہو ۔ گو بعض لوگوں نے ایسے مجہول الحال راویوں کی روایت لی بھی ہے ، اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں فاسق کی خبر قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جس کا حال معلوم نہیں اس کا فاسق ہونا ہم پر ظاہر نہیں ۔ ہم نے اس مسئلہ کی پوری وضاحت سے صحیح بخاری شریف کی شرح میں کتاب العلم میں بیان کر دیا ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابومعیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا تھا ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { حارث بن ضرار خزاعی جو ام المؤمنین سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے والد ہیں فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوٰۃ ادا کریں ، میں ان کی زکوۃٰ جمع کرتا ہوں ، اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجئیے ، میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مال زکوٰۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوا دوں گا ۔ سیدنا حارث رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر یہی کیا ، مال زکوٰۃ جمع کیا ، جب وقت مقررہ گزر چکا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا ، تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا : یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں ، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہو گئے ہوں ؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوٰۃ لے جانے کے لیے نہ بھیجا ہو ، اگر آپ لوگ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ شریف چلیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں یہ تجویز طے ہو گئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوٰۃ ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ۔ ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے لیکن یہ راستے ہی میں سے ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہہ دیا کہ حارث نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے قتل کے درپے ہو گیا ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کچھ آدمی تنبیہ کے لیے روانہ فرمائے ، مدینہ کے قریب راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حارث کو پا لیا اور گھیر لیا ۔ حارث نے پوچھا : آخر کیا بات ہے ؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں پوچھا کیوں ؟ کہا : اس لیے کہ تو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ولید رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ نہ دی بلکہ انہیں قتل کرنا چاہا ۔ حارث رضی اللہ عنہ نے کہا : قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے ، نہ میں نے اسے دیکھا ، نہ وہ میرے پاس آیا ، چلو میں تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں ، یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا ؟ حارث نے جواب دیا ہرگز نہیں یا رسول اللہ ! قسم ہے اللہ کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے ، نہ میں نے انہیں دیکھا ، نہ وہ میرے پاس آئے ۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا ، اس پر یہ آیت «وَ اللہُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ» ۱؎ (49-الحجرات:8) تک نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:279/4:حسن بشواھدہ) طبرانی میں یہ بھی ہے کہ { جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد حارث کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کیلئے خاص تیاری کر کے نکلے ، ادھر ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لیے آ رہے ہیں ، تو یہ لوٹ کر واپس چلے آئے ، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد واپس چلے گئے ، تو خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اپنے آدمی کو بھیجا ، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ، ہم بے حد خوش ہوئے ، لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے میں سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے ۔ عصر کی اذان جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:383/11:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ { ولید رضی اللہ عنہ کی اس خبر پر ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آ گیا اور انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا ، تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بنا پر انہیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہو گا اس لیے حاضر ہوئے ہیں ، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:383/11:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کے لیے لشکر جمع کر لیا ہے اور اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زیر امارت ایک فوجی دستے کو بھیج دیا لیکن انہیں فرما دیا تھا کہ ” پہلے تحقیق و تفتیش اچھی طرح کر لینا ، جلدی سے حملہ نہ کر دینا “ ۔ اسی کے مطابق سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر اپنے جاسوس شہر میں بھیج دئیے وہ خبر لائے کہ وہ لوگ دین اسلام پر قائم ہیں ، مسجد میں اذانیں ہوئیں ، جنہیں ہم نے خود سنا اور لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے خود دیکھا ۔ صبح ہوتے ہی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ خود گئے اور وہاں کے اسلامی منظر سے خوش ہوئے ، واپس آ کر سرکار نبوی میں ساری خبر دی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ قتادہ رحمہ اللہ جو اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” تحقیق و تلاش بردباری اور دور بینی اللہ کی طرف سے ہے ۔ اور عجلت اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:384/11:ضعیف) سلف میں سے قتادہ رحمہ اللہ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے جیسے ابن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان ، ضحاک ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم وغیرہ ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»