أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُم
تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہے اس شخص کی طرح ہے جس کے لیے اس کے برے اعمال مزین کردیے گئے اور انھوں نے اپنی خواہشوں کی پیروی کی؟
دودھ پانی اور شہد کے سمندر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص دین اللہ میں یقین کے درجے تک پہنچ چکا ہو ، جسے بصیرت حاصل ہو چکی ہو ، فطرت صحیحہ کے ساتھ ساتھ ہدایت و علم بھی ہو وہ اور وہ شخص جو بداعمالیوں کو نیک کاریاں سمجھ رہا ہو جو اپنی خواہش نفس کے پیچھے پڑا ہوا ہو ، یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ جیسے فرمان ہے «اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقٰ کَمَنْ ہُوَ اَعْمٰی اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ» ۱؎ (13-الرعد:19) یعنی ’ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی وحی کو حق ماننے والا اور ایک اندھا برابر ہو جائے ‘ ۔ اور ارشاد ہے آیت «لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَایِٕزُوْنَ» ۱؎ (59-الحشر:20) یعنی ’ جہنمی اور جنتی برابر نہیں ہو سکتے جنتی کامیاب اور مراد کو پہنچے ہوئے ہیں ‘ ۔ پھر جنت کے اور اوصاف بیان فرماتا ہے کہ اس میں پانی کے چشمے ہیں جو کبھی بگڑتا نہیں ، متغیر نہیں ہوتا ، سڑتا نہیں ، نہ بدبو پیدا ہوتی ہے بہت صاف موتی جیسا ہے کوئی گدلا پن نہیں کوڑا کرکٹ نہیں ۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” جنتی نہریں مشک کے پہاڑوں سے نکلتی ہیں اس میں پانی کے علاوہ دودھ کی نہریں بھی ہیں جن کا مزہ کبھی نہیں بدلتا بہت سفید ، بہت میٹھا اور نہایت صاف شفاف اور بامزہ پرذائقہ “ ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { یہ دودھ جانوروں کے تھن سے نہیں نکلا ہوا بلکہ قدرتی ہے اور نہریں ہوں گی شراب صاف کی ، جو پینے والے کا دل خوش کر دیں ، دماغ کشادہ کر دیں } ۔ ۱؎ (بیہقی فی البعث والنشور:293) «بَیْضَاءَ لَذَّۃٍ لِّلشَّارِبِینَ» ۱؎ (37-الصافات:46) ’ جو شراب نہ تو بدبودار ہے ، نہ تلخی والی ہے ، نہ بدمنظر ہے ‘ ۔ بلکہ دیکھنے میں بہت اچھی ، پینے میں بہت لذیذ ، نہایت خوشبودار «لَّا یُصَدَّعُونَ عَنْہَا وَلَا یُنزِفُونَ» ۱؎ (56-الواقعۃ:19) ’ جس سے نہ عقل میں فتور آئے ، نہ دماغ چکرائیں ، نہ منہ سے بدبو آئے ، نہ بک جھک لگے ‘ ۔ «لَا فِیہَا غَوْلٌ وَلَا ہُمْ عَنْہَا یُنزَفُونَ» ۱؎ (37-الصافات:47) ’ نہ سر میں درد ہو ، نہ چکر آئیں ، نہ بہکیں ، نہ بھٹکیں ، نہ نشہ چڑھے ، نہ عقل جائے ‘ ۔ حدیث میں ہے کہ { یہ شراب بھی کسی کے ہاتھوں کی کشید کی ہوئی نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے تیار ہوئی ہے ، خوش ذائقہ اور خوش رنگ ہے جنت میں شہد کی نہریں بھی ہیں جو بہت صاف ہے اور خوشبودار اور ذائقہ کا تو کہنا ہی کیا ہے } ۔ حدیث شریف میں ہے کہ { یہ شہد بھی مکھیوں کے پیٹ سے نہیں } ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ { جنت میں دودھ ، پانی ، شہد اور شراب کے سمندر ہیں جن میں سے ان کی نہریں اور چشمے جاری ہوتے ہیں } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2571،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ترمذی شریف میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے { یہ نہریں جنت عدن سے نکلتی ہیں پھر ایک حوض میں آتی ہیں وہاں سے بذریعہ اور نہروں کے تمام جنتوں میں جاتی ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:316/4:ضعیف) ایک اور صحیح حدیث میں ہے { جب تم اللہ سے سوال کرو تو جنت الفردوس طلب کرو وہ سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ جنت ہے اسی سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں اور اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2790) طبرانی میں ہے { لقیط بن عامر نے جب وفد میں آئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جنت میں کیا کچھ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” صاف شہد کی نہریں اور بغیر نشے کے سر درد نہ کرنے والی شراب کی نہریں اور نہ بگڑنے والے دودھ کی نہریں اور خراب نہ ہونے والے شفاف پانی کی نہریں اور طرح طرح کے میوہ جات عجیب و غریب بے مثل و بالکل تازہ اور پاک صاف بیویاں جو صالحین کو ملیں گی اور خود بھی صالحات ہوں گی دنیا کی لذتوں کی طرح ان سے لذتیں اٹھائیں گے ہاں وہاں بال بچے نہ ہوں گے “ } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:211/19:) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” یہ نہ خیال کرنا کہ جنت کی نہریں بھی دنیا کی نہروں کی طرح کھدی ہوئی زمین میں اور گڑھوں میں بہتی ہیں ، نہیں نہیں ، قسم اللہ کی ! وہ صاف زمین پر یکساں جاری ہیں ان کے کنارے کنارے «لؤلؤ» اور موتیوں کے خیمے ہیں ان کی مٹی مشک خالص ہے “ ۔ پھر فرماتا ہے وہاں ان کے لیے ہر طرح کے میوے اور پھل پھول ہیں ۔ جیسے اور جگہ فرمایا «یَدْعُوْنَ فِیْہَا بِکُلِّ فَاکِہَۃٍ اٰمِنِیْنَ» ۱؎ (44-الدخان:55) ، یعنی ’ وہاں نہایت امن و امان کے ساتھ وہ ہر قسم کے میوے منگوائیں گے اور کھائیں گے ‘ ۔ ایک اور آیت میں ہے «فِیْہِمَا مِنْ کُلِّ فَاکِہَۃٍ زَوْجٰنِ» ۱؎ (55-الرحمن:52) ، ’ دونوں جنتوں میں ہر اک قسم کے میوؤں کے جوڑے ہیں ‘ ۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ رب خوش ہے وہ اپنی مغفرت ان کے لیے حلال کر چکا ہے ۔ انہیں نواز چکا ہے اور ان سے راضی ہو چکا ہے اب کوئی کھٹکا ہی نہیں ۔ جنتوں کی یہ دھوم دھام اور نعمتوں کے بیان کے بعد فرماتا ہے کہ دوسری جانب جہنمیوں کی یہ حالت ہے کہ وہ جہنم کے درکات میں جل بھلس رہے ہیں اور وہاں سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں اور سخت پیاس کے موقعہ پر وہ کھولتا ہوا گرم پانی جو دراصل آگ ہی ہے لیکن بشکل پانی انہیں پینے کے لیے ملتا ہے کہ ایک گھونٹ اندر جاتے ہی آنتیں کٹ جاتی ہیں ۔ اللہ ہمیں پناہ میں رکھے ۔ پھر بھلا اس کا اور اس کا کیا میل ؟ کہاں جنتی کہاں جہنمی کہاں نعمت کہاں زحمت یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں ؟