وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
اور انھوں نے کہا ہماری اس دنیا کی زندگی کے سوا کوئی (زندگی) نہیں، ہم (یہیں) جیتے اور مرتے ہیں اور ہمیں زمانے کے سوا کوئی ہلاک نہیں کرتا، حالانکہ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ محض گمان کر رہے ہیں۔
زمانے کو گالی مت دو دہریہ کفار اور ان کے ہم عقیدہ مشرکین کا بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا ہی ابتداء اور انتہاء ہے ، کچھ جیتے ہیں ، کچھ مرتے ہیں ، قیامت کوئی چیز نہیں ۔ فلاسفہ اور علم کلام کے قائل یہی کہتے تھے یہ لوگ ابتداء اور انتہاء کے قائل نہ تھے اور فلاسفہ میں سے جو لوگ دھریہ اور دوریہ تھے وہ خالق کے بھی منکر تھے ان کا خیال تھا کہ ہر چھتیس ہزار سال کے بعد زمانے کا ایک دور ختم ہوتا ہے اور ہر چیز اپنی اصلی حالت پر آ جاتی ہے اور ایسے کئی دور کے وہ قائل تھے دراصل یہ معقول سے بھی بیکار جھگڑتے تھے اور منقول سے بھی روگردانی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ گردش زمانہ ہی ہلاک کرنے والی ہے نہ کہ اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ اس کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں اور بجز و ہم و خیال کے کوئی سند وہ پیش نہیں کر سکتے ‘ ۔ ابوداؤد وغیرہ کی صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ دہر کو [ یعنی زمانے کو ] گالیاں دیتا ہے دراصل زمانہ میں ہی ہوں تمام کام میرے ہاتھ ہیں دن رات کا ہیر پھیر کرتا ہوں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4826) ایک روایت میں ہے { دہر [زمانہ] کو گالی نہ دو اللہ ہی زمانہ ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:299/5:صحیح) ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے ایک بالکل غریب سند سے وارد کیا ہے اس میں ہے { اہل جاہلیت کا خیال تھا کہ ہمیں دن رات ہی ہلاک کرتے ہیں ، وہی ہمیں مارتے جلاتے ہیں ، پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اسے نقل فرمایا ’ وہ زمانے کو برا کہتے تھے ‘ ،پس اللہ عزوجل نے فرمایا ’ مجھے ابن آدم ایذاء پہنچاتا ہے وہ زمانے کو برا کہتا ہے اور زمانہ میں ہوں ، میرے ہاتھ میں سب کام ہیں میں دن رات کا لے آنے لے جانے والا ہوں ‘ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:264/11) ابن ابی حاتم میں ہے { ابن آدم زمانے کو گالیاں دیتا ہے ، میں زمانہ ہوں ، دن رات میرے ہاتھ میں ہیں } ۔ اور حدیث میں ہے { میں نے اپنے بندے سے قرض طلب کیا اس نے مجھے نہ دیا ، مجھے میرے بندے گالیاں دیں ، وہ کہتا ہے ہائے ہائے زمانہ اور زمانہ میں ہوں } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:92/25:) امام شافعی اور ابوعبیدہ رحمہا اللہ وغیرہ ائمہ لغت و تفسیر اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ” جاہلیت کے عربوں کو جب کوئی بلا اور شدت و تکلیف پہنچتی تو وہ اسے زمانے کی طرف نسبت کرتے اور زمانے کو برا کہتے دراصل زمانہ خود تو کچھ کرتا نہیں ہر کام کا کرتا دھرتا اللہ تعالیٰ ہی ہے ، اس لیے اس کا زمانے کو گالی دینا فی الواقع اسے برا کہنا تھا جس کی ہاتھ میں اور جس کے بس میں زمانہ ہے جو راحت و رنج کا مالک ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ «عزاسمہ» ہے ۔ پس وہ گالی حقیقی فاعل یعنی اللہ تعالیٰ پر پڑتی ہے اس لیے اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا : ” اور لوگوں کو اس سے روک دیا “ یہی شرح بہت ٹھیک اور بالکل درست ہے ۔ امام ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ نے اس حدیث سے جو یہ سمجھ لیا ہے کہ «دھر» اللہ کے اسماء حسنیٰ میں سے ایک نام ہے یہ بالکل غلط ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر ان بےعلموں کی کج بخشی بیان ہو رہی ہے کہ قیامت قائم ہونے کی اور دوبارہ جلائے جانے کی بالکل صاف دلیلیں جب انہیں دی جاتی ہیں اور قائل معقول کر دیا جاتا ہے تو چونکہ جب کچھ بن نہیں پڑتا جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ اچھا پھر ہمارے مردہ باپ دادوں پردادوں کو زندہ کر کے ہمیں دکھا دو تو ہم مان لیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِ اللہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیکُمْ» ۱؎ (2-البقرۃ:28) ’ تم اپنا پیدا کیا جانا اور مر جانا تو اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہو کہ تم کچھ نہ تھے اور اس نے تمہیں موجود کر دیا پھر وہ تمہیں مار ڈالتا ہے ‘ ، «وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَہُوَ أَہْوَنُ عَلَیْہِ» ۱؎ (30-الروم27) ’ تو جو ابتداءً پیدا کرنے پر قادر ہے وہ دوبارہ جی اٹھانے پر قادر کیسے نہ ہو گا ؟ ‘ ۔ بلکہ عقلًا ہدایت [ واضح طور پر ] کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ جو شروع شروع کسی چیز کو بنا دے اس پر دوبارہ اس کا بنانا بہ نسبت پہلی دفعہ کے بہت آسان ہوتا ہے ۔ پس یہاں فرمایا کہ پھر وہ تمہیں قیامت کے دن جس کے آنے میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا ۔ وہ دنیا میں تمہیں دوبارہ لانے کا نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ ہمارے باپ دادوں کو زندہ کر لاؤ ۔ یہ تو دارعمل ہے ، دارجزا قیامت کا دن ہے ، یہاں تو ہر ایک کو تھوڑی بہت تاخیر مل جاتی ہے جس میں وہ اگر چاہے اس دوسرے گھر کے لیے تیاریاں کر سکتا ہے بس اپنی بےعلمی کی بناء پر تمہیں اس کا انکار نہ کرنا چاہیے ۔ «إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیدًا وَنَرَاہُ قَرِیبًا» ۱؎ (70-المعارج:6،7) ’ تم گو اسے دور جان رہے ہو لیکن دراصل وہ قریب ہی ہے ‘ ، تم گو اس کا آنا محال سمجھ رہے ہو لیکن فی الواقع اس کا آنا یقینی ہے ، مومن باعلم اور ذی عقل ہیں کہ وہ اس پر یقین کامل رکھ کر عمل میں لگے ہوئے ہیں ۔