وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
اور اگر ہم اسے عجمی قرآن بنا دیتے تو یقیناً وہ کہتے اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں، کیا عجمی زبان اور عربی (رسول)؟ کہہ دے یہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بہت دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔
قرآن کو جھٹلانے والے جھکی ہیں قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اس کے حکم احکام اس کے لفظی و معنوی فوائد کا بیان کر کے اس پر ایمان نہ لانے والوں کی سرکشی ضد اور عداوت کا بیان فرما رہا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوْ نَزَّلْنَاہُ عَلَیٰ بَعْضِ الْأَعْجَمِینَ فَقَرَأَہُ عَلَیْہِم مَّا کَانُوا بِہِ مُؤْمِنِینَ » ۱؎ (26-الشعراء:198،199) مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے کے بیسیوں حیلے ہیں نہ یوں چین نہ ووں چین ۔ اگر قرآن کسی عجمی زبان میں اترتا تو بہانہ کرتے کہ ہم تو اسے صاف صاف سمجھ نہیں سکتے ۔ مخاطب جب عربی زبان کے ہیں تو ان پر جو کتاب اترتی ہے وہ غیر عربی زبان میں کیوں اتر رہی ہے ؟ اور اگر کچھ عربی میں ہوتی اور کچھ دوسری زبان میں تو بھی ان کا یہی اعتراض ہوتا کہ اس کی کیا وجہ ؟ حسن بصری رحمہ اللہ کی قرأت «اَعْجَمِیٌّ» ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ بھی یہی مطلب بیان کرتے ہیں ۔ اس سے ان کی سرکشی معلوم ہوتی ہے ۔ پھر فرمان ہے کہ ’ یہ قرآن ایمان والوں کے دل کی ہدایت اور ان کے سینوں کی شفاء ہے ۔ ان کے تمام شک اس سے زائل ہو جاتے ہیں اور جنہیں اس پر ایمان نہیں وہ تو اسے سمجھ ہی نہیں سکتے جیسے کوئی بہرا ہو ، نہ اس کے بیان کی طرف انہیں ہدایت ہو جیسے کوئی اندھا ہو ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» ۱؎ (17-الإسراء:82) ’ ہمارا نازل کردہ یہ قرآن ایمان داروں کے لیے شفاء اور رحمت ہے ۔ ہاں ظالموں کو تو ان کا نقصان ہی بڑھاتا ہے ‘ ۔ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی دور سے کسی سے کچھ کہہ رہا ہو کہ نہ اس کے کانوں تک صحیح الفاظ پہنچتے ہیں نہ وہ ٹھیک طرح مطلب سمجھتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے «وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَعْقِلُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:171) یعنی ، ’ کافروں کی مثال اس کی طرح ہے جو پکارتا ہے مگر آواز اور پکار کے سوا کچھ اور اس کے کان میں نہیں پڑتا ۔ بہرے گونگے اندھے ہیں پھر کیسے سمجھ لیں گے ؟ ‘ ضحاک رحمہ اللہ نے یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے بدترین ناموں سے پکارا جائے گا ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک مسلمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جس کا آخری وقت تھا اس نے یکایک «لَبـَّیـْکَ» پکارا آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” کیا تجھے کوئی دیکھ رہا ہے یا کوئی پکار رہا ہے “ ؟ اس نے کہا ہاں سمندر کے اس کنارے سے کوئی بلا رہا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہی جملہ پڑھا «اُولٰیِٕکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍ بَعِیْدٍ» ۱؎ (41-فصلت:44) ۔ (ابن ابی حاتم) پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ کو کتاب دی لیکن اس میں بھی اختلاف کیا گیا ۔ انہیں بھی جھٹلایا اور ستایا گیا ۔ «فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرٰسُلِ» ۱؎ (46-الأحقاف:35) ’ پس جیسے انہوں نے صبر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی صبر کرنا چاہیئے ‘ ، چونکہ «وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّکَ إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی» ۱؎ (42-الشوری:14) ’ پہلے ہی سے تیرے رب نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک وقت مقرر یعنی قیامت تک عذاب رکے رہیں گے ‘ ۔ اس لیے یہ مہلت مقررہ ہے ورنہ ان کے کرتوت تو ایسے نہ تھے کہ یہ چھوڑ دیئے جائیں اور کھاتے پیتے رہیں ۔ ابھی ہی ہلاک کر دیئے جاتے ۔ یہ اپنی تکذیب میں بھی کسی یقین پر نہیں بلکہ شک میں ہی پڑے ہوئے ہیں ۔ لرز رہے ہیں ادھر ادھر ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔