فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
تو اس نے انھیں دو دنوں میں سات آسمان پورے بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کے کام کی وحی فرمائی اور ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت دی اور خوب محفوظ کردیا۔ یہ اس کا اندازہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والا ہے۔
انبیاء کی تکذیب عذاب الٰہی کا سبب حکم ہوتا ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ کفر کر رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرما دیجئیے کہ میری تعلیم سے روگردانی تمہیں کسی نیک نتیجے پر نہیں پہنچائے گی ۔ یاد رکھو کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کی مخالف امتیں تم سے پہلے زیرو زبر کر دی گئیں کہیں تمہاری شامت اعمال بھی تمہیں انہی میں سے نہ کر دے ۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے اور ان جیسے اوروں کے حالات تمہارے سامنے ہیں ۔ ان کے پاس پے در پے رسول علیہم السلام آئے اس گاؤں میں اس گاؤں میں اس بستی میں اس بستی میں اللہ کے پیغمبر علیہم السلام اللہ کی منادی کرتے پھرتے لیکن ان کی آنکھوں پر وہ چربی چڑھی ہوئی تھی اور دماغ میں وہ گند ٹھسا ہوا تھا کہ کسی ایک کو بھی نہ مانا ۔ اپنے سامنے اللہ والوں کی بہتری اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدحالی دیکھتے تھے لیکن پھر بھی تکذیب سے باز نہ آئے ۔ حجت بازی اور کج بحثی سے نہ ہٹے اور کہنے لگے اگر اللہ کو رسول بھیجنا ہوتا تو کسی اپنے فرشتے کو بھیجتا تم انسان ہو کر رسول اللہ بن بیٹھے ؟ ہم تو اسے ہرگز باور نہ کریں گے ؟ قوم عاد نے زمین میں فساد پھیلا دیا ان کی سرکشی ان کا غرور حد کو پہنچ گیا ۔ ان کی لا ابالیاں اور بےپرواہیاں یہاں تک پہنچ گئیں کہ پکار اٹھے ہم سے زیادہ زور آور کوئی نہیں ۔ ہم طاقتور مضبوط اور ٹھوس ہیں اللہ کے عذاب ہمارا کیا بگاڑ لیں گے ؟ اس قدر پھولے کہ اللہ کو بھول گئے ۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ ہمارا پیدا کرنے والا تو اتنا قوی ہے کہ اس کی زور آوری کا اندازہ بھی ہم نہیں کر سکتے ۔ جیسے فرمان ہے «وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ» ۱؎ (51-الذاریات:47)’ ہم نے اپنے ہاتھوں آسمان کو پیدا کیا اور ہم بہت ہی طاقتور اور زور آور ہیں ‘ ۔ پس ان کے اس تکبر پر اور اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے پر اور اللہ کی نافرمانی کرنے اور رب کی آیتوں کے انکار پر ان پر عذاب الٰہی آ پڑا ۔ تیز و تند ، سرد ، دہشت ناک ، سرسراتی ہوئی سخت آندھی آئی ۔ تاکہ ان کا غرور ٹوٹ جائے اور ہوا سے وہ تباہ کر دیئے جائیں ۔ «صَرْصَراً» کہتے ہیں وہ ہوا جس میں آواز پائی جائے ۔ مشرق کی طرف ایک نہر ہے جو بہت زور سے آواز کے ساتھ بہتی رہتی ہے اس لیے اسے بھی عرب «صَرْصَراً» کہتے ہیں ۔ «نَحِسَات» سے مراد پے در پے ، ایک دم ، مسلسل ، سات راتیں اور آٹھ دن تک یہی ہوائیں رہیں ۔ وہ مصیبت جو ان پر مصیبت والے دن آئی وہ پھر آٹھ دن تک نہ ہٹی نہ ٹلی ۔ جب تک ان میں سے ایک ایک کو فنا کے گھاٹ نہ اتار دیا اور ان کا بیج ختم نہ کر دیا ۔ ساتھ ہی آخرت کے عذابوں کا لقمہ بنے جن سے زیادہ ذلت و توہین کی کوئی سزا نہیں ۔ نہ دنیا میں کوئی ان کی امداد کو پہنچا نہ آخرت میں کوئی مدد کیلئے اٹھے گا ۔ بےیارو مددگار رہ گئے ۔ ثمودیوں کی بھی ہم نے رہنمائی کی ۔ ہدایت کی ان پر وضاحت کر دی انہیں بھلائی کی دعوت دی ۔ اللہ کے نبی صالح علیہ السلام نے ان پر حق ظاہر کر دیا لیکن انہوں نے مخالفت اور تکذیب کی ۔ اور نبی اللہ علیہ السلام کی سچائی پر جس اونٹنی کو اللہ نے علامت بنایا تھا اس کی کوچیں کاٹ دیں ۔ پس ان پر بھی عذاب اللہ برس پڑا ۔ ایک زبردست کلیجے پھاڑ دینے والی چنگاڑ اور دل پاش پاش کر دینے والے زلزلے نے ذلت و توہین کے ساتھ ان کے کرتوتوں کا بدلہ لیا ۔ ان میں جتنے وہ لوگ تھے جنہیں اللہ کی ذات پر ایمان تھا نبیوں کی تصدیق کرتے تھے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے تھے انہیں ہم نے بچا لیا انہیں ذرا سا بھی ضرر نہ پہنچا اور اپنے نبی علیہ السلام کے ساتھ ذلت و توہین سے اور عذاب اللہ سے نجات پالی ۔