قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ ۗ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ
کہہ دے میں تو تمھارے جیسا ایک بشر ہی ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے، سو اس کی طرف سیدھے ہوجاؤ اور اس سے بخشش مانگو اور مشرکوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔
حصول نجات اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا حکم ہو رہا ہے کہ ’ ان جھٹلانے والے مشرکوں کے سامنے اعلان کر دیجئیے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ۔ مجھے بذریعہ وحی الٰہی کے حکم دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود ایک اکیلا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ تم جو متفرق اور کئی ایک معبود بنائے بیٹھے ہو یہ طریقہ سراسر گمراہی والا ہے ۔ تم ساری عبادتیں اسی ایک اللہ کیلئے بجا لاؤ ۔ اور ٹھیک اسی طرح جس طرح تمہیں اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہو ۔ اور اپنے اگلے گناہوں سے توبہ کرو ۔ ان کی معافی طلب کرو ۔ یقین مانو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے ہلاک ہونے والے ہیں ، جو زکوٰۃ نہیں دیتے ‘ ۔ یعنی بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» کی شہادت نہیں دیتے ۔ عکرمہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے « قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا » ۱؎ (91-الشمس:9-10) یعنی ’ اس نے فلاح پائی جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا ۔ اور وہ ہلاک ہوا جس نے اسے دبا دیا ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا «قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِ فَصَلَّیٰ» ۱؎ (87-الأعلی:15،14) یعنی ’ اس نے نجات حاصل کر لی جس نے پاکیزگی کی اور اپنے رب کا نام ذکر کیا پھر نماز ادا کی ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے «ہَلْ لَّکَ اِلٰٓی اَنْ تَـزَکّٰی» ۱؎ (79-النازعات:18) ’ کیا تجھے پاک ہونے کا خیال ہے ؟ ‘ ان آیتوں میں زکوٰۃ یعنی پاکی سے مطلب نفس کو بے ہودہ اخلاق سے دور کرنا ہے اور سب سے بڑی اور پہلی قسم اس کی شرک سے پاک ہونا ہے ، اسی طرح آیت مندرجہ بالا میں بھی زکوٰۃ نہ دینے سے توحید کا نہ ماننا مراد ہے ۔ مال کی زکوٰۃ کو زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حرمت سے پاک کر دیتی ہے ۔ اور زیادتی اور برکت اور کثرت مال کا باعث بنتی ہے ۔ اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ کی توفیق ہوتی ہے ۔ لیکن امام سعدی ، معاویہ بن قرہ ، قتادہ رحمہ اللہ علیہم اور اکثر مفسرین نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ۔ اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ اس لیے کہ زکوٰۃ فرض ہوتی ہے مدینے میں جا کر ہجرت کے دوسرے سال ۔ اور یہ آیت اتری ہے مکے شریف میں ۔ زیادہ سے زیادہ اس تفسیر کو مان کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدقے اور زکوٰۃ کی اصل کا حکم تو نبوت کی ابتداء میں ہی تھا ، جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے «وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ» ۱؎ (6-الأنعام:141) ’ جس دن کھیت کاٹو اس کا حق دے دیا کرو ‘ ۔ ہاں وہ زکوٰۃ جس کا نصاب اور جس کی مقدار من جانب اللہ مقرر ہے وہ مدینے میں مقرر ہوئی ۔ یہ قول ایسا ہے جس سے دونوں باتوں میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے ۔ خود نماز کو دیکھئیے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ابتداء نبوت میں ہی فرض ہو چکی تھی ۔ لیکن معراج والی رات ہجرت سے ڈیڑھ سال پہلے پانچوں نمازیں باقاعدہ شروط و ارکان کے ساتھ مقرر ہو گئیں ۔ اور رفتہ رفتہ اس کے تمام متعلقات پورے کر دیئے گئے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ جل جلالہ فرماتا ہے کہ ’ اللہ کے ماننے والوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزاروں کیلئے وہ اجر و ثواب ہے جو دائمی ہے اور کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا» ۱؎ (18-الکہف:3) ’ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ‘ اور فرماتا ہے «عَطَاءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ» ۱؎ (11-ھود:108) ’ انہیں جو انعام دیا جائے گا وہ نہ ٹوٹنے والا اور مسلسل ہے ‘ ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں گویا وہ ان کا حق ہے جو انہیں دیا گیا نہ کہ بطور احسان ہے ۔ لیکن بعض ائمہ نے اس کی تردید کی ہے ۔ کیونکہ اہل جنت پر بھی اللہ کا احسان یقیناً ہے ۔ خود قرآن میں ہے «بَلِ اللّٰہُ یَمُنٰ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدٰیکُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ» ۱؎ (49-الحجرات:17) یعنی ’ بلکہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ وہ تمہیں ایمان کی ہدایت کرتا ہے ‘ ۔ جنتیوں کا قول ہے «فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا وَوَقٰینَا عَذَاب السَّمُوْمِ» ۱؎ (52-الطور:27) ’ پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور آگ کے عذاب سے بچا لیا ‘ ۔ رسول اللہ علیہ افضل اصلوۃ والتسلیم فرماتے ہیں { مگر یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت میں لے لے اور اپنے فضل و احسان میں } ۔