م
حۤم۔
ہر معجزۂ قرآن کے باوجود ہدایت نہ پائی فرماتا ہے کہ ’یہ عربی کا قرآن اللہ رحمان کا اتار ہوا ہے‘ ۔ جیسے اور آیت میں فرمایا «قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِن رَّبِّکَ بِالْحَقِّ» ۱؎ (16-النحل:102) ’ اسے تیرے رب کے حکم سے روح الامین نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے«وَإِنَّہُ لَتَنزِیلُ رَبِّ الْعَالَمِینَ نَزَلَ بِہِ الرٰوحُ الْأَمِینُ عَلَیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الْمُنذِرِینَ» ۱؎ (26-الشعراء:192-194) ’ روح الامین نے اسے تیرے دل پر اس لیے نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو آگاہ کرنے والا بن جائے ‘ ، اس کی آیتیں مفصل ہیں ، ان کے معانی ظاہر ہیں ، احکام مضبوط ہیں ۔ الفاظ واضح اور آسان ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے «کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ» ۱؎ (11-ھود:1) ، ’ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم و مفصل ہیں یہ کلام ہے حکیم و خبیر اللہ جل شانہ کا لفظ کے اعتبار سے معجز اور معنی کے اعتبار سے معجز ‘ ۔ «لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:42) ’ باطل اس کے قریب پھٹک بھی نہیں سکتا ۔ حکیم و حمید رب کی طرف سے اتارا گیا ہے ‘ ۔ اس بیان و وضاحت کو ذی علم سمجھ رہے ہیں ۔ یہ ایک طرف مومنوں کو بشارت دیتا ہے ۔ دوسری جانب مجرموں کو دھمکاتا ہے ۔ کفار کو ڈراتا ہے ۔ باوجود ان خوبیوں کے پھر بھی اکثر قریشی منہ پھیرے ہوئے اور کانوں میں روئی دیئے بہرے ہوئے ہیں ، پھر مزید ڈھٹائی دیکھو کہ خود کہتے ہیں کہ تیری پکار سننے میں ہم بہرے ہیں ۔ تیرے اور ہمارے درمیان آڑ ہیں ۔ تیری باتیں نہ ہماری سمجھ میں آئیں نہ عقل میں سمائیں ۔ جا تو اپنے طریقے پر عمل کرتا چلا جا ۔ ہم اپنا طریقہ کار ہرگز نہ چھوڑیں گے ۔ ناممکن ہے کہ ہم تیری مان لیں ۔ مسند عبد بن حمید میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دن قریشیوں نے جمع ہو کر آپس میں مشاورت کی کہ جادو کہانت اور شعر و شاعری میں جو سب سے زیادہ ہو اسے ساتھ لے کر اس شخص کے پاس چلیں ۔[یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم] جس نے ہماری جمعیت میں تفریق ڈال دی ہے اور ہمارے کام میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ہمارے دین میں عیب نکالنا شروع کر دیا ہے وہ اس سے مناظرہ کرے اور اسے ہرا دے اور لاجواب کر دے سب نے کہا کہ ایسا شخص تو ہم میں بجز عتبہ بن ربیعہ کے اور کوئی نہیں ۔ چنانچہ یہ سب مل کر عتبہ کے پاس آئے اور اپنی متفقہ خواہش ظاہر کی ۔ اس نے قوم کی بات رکھ لی اور تیار ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ آ کر کہنے لگا کہ ” اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتا تو اچھا ہے یا عبداللہ ؟ “ [ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد صاحب ] ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے دوسرا سوال کیا کہ ” تو اچھا ہے یا تیرا دادا عبدالمطلب ؟ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بھی خاموش رہے ۔ وہ کہنے لگا سن اگر تو اپنے تئیں دادوں کو اچھا سمجھتا ہے تب تو تمہیں معلوم ہے وہ انہیں معبودوں کو پوجتے رہے جن کو ہم پوجتے ہیں اور جن کی تو عیب گیری کرتا رہتا ہے اور اگر تو اپنے آپ کو ان سے بہتر سمجھتا ہے تو ہم سے بات کر ہم بھی تیری باتیں سنیں ۔ قسم اللہ کی دنیا میں کوئی انسان اپنی قوم کیلئے تجھ سے زیادہ ضرر رساں پیدا نہیں ہوا ۔ تو نے ہماری شیرازہ بندی کو توڑ دیا ۔ تو نے ہمارے اتفاق کو نفاق سے بدل دیا ۔ تو نے ہمارے دین کو عیب دار بتایا اور اس میں برائی نکالی ۔ تو نے سارے عرب میں ہمیں بدنام اور رسوا کردیا ۔ آج ہر جگہ یہی تذکرہ ہے کہ قریشیوں میں ایک جادوگر ہے ۔ قریشیوں میں کاہن ہے ۔ اب تو یہی ایک بات باقی رہ گئی ہے کہ ہم میں آپس میں سر پھٹول ہو ، ایک دوسرے کے سامنے ہتھیار لگا کر آ جائیں اور یونہی لڑا بھڑا کر تو ہم سب کو فنا کر دینا چاہتا ہے ، سن ! اگر تجھے مال کی خواہش ہے تو لے ہم سب مل کر تجھے اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ عرب میں تیرے برابر کوئی اور تونگر نہ نکلے ۔ اور تجھے عورتوں کی خواہش ہے کہ تو ہم میں سے جس کی بیٹی تجھے پسند ہو تو بتا ہم ایک چھوڑ دس دس شادیاں تیری کرا دیتے ہیں “ ۔ یہ سب کچھ کہہ کر اب اس نے ذرا سانس لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس کہہ چکے ؟ } اس نے کہا ” ہاں “ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اب میری سنو ! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر اسی سورۃ کی تلاوت شروع کی اور تقریباً ڈیڑھ رکوع «مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ» ۱؎ (41-فصلت:13) تک پڑھا } ،اتنا سن کر عتبہ بول پڑا ” بس کیجئے آپ [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں } ۔ اب یہ یہاں سے اٹھ کر چل دیا قریش کا مجمع اس کا منتظر تھا ۔ انہوں نے دیکھتے ہی پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ عتبہ نے کہا ” سنو تم سب مل کر جو کچھ اسے کہہ سکتے تھے میں نے اکیلے ہی وہ سب کچھ کہہ ڈالا “ ۔ انہوں نے کہا پھر اس نے کچھ جواب بھی دیا کہا ہاں جواب تو دیا لیکن باللہ میں تو ایک حرف بھی اس کا سمجھ نہیں سکا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ انہوں نے ہم سب کو عذاب آسمانی سے ڈرایا ہے جو عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر آیا تھا ۔ انہوں نے کہا تجھے اللہ کی مار ایک شخص عربی زبان میں جو تیری اپنی زبان ہے تجھ سے کلام کر رہا ہے اور تو کہتا ہے میں سمجھا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا؟ عتبہ نے جواب دیا کہ ”میں سچ کہتا ہوں بجز ذکر عذاب کے میں کچھ نہیں سمجھا“۔ ۱؎ (ابن ابی شیبۃ فی المصنف:295/14:اسنادہ ضعیف) بغوی رحمہ اللہ بھی اس روایت کو لائے ہیں اس میں یہ بھی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو عتبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک پر ہاتھ رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسمیں دینے لگا اور رشتے داری یاد دلانے لگا ۔ اور یہاں سے الٹے پاؤں واپس جا کر گھر میں بیٹھا ۔ اور قریشیوں کی بیٹھک میں آنا جانا ترک کر دیا ۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ قریشیو ! میرا خیال تو یہ ہے کہ عتبہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھک گیا اور وہاں کے کھانے پینے میں للچا گیا ہے ، وہ حاجت مند تھا اچھا تم میرے ساتھ ہو لو میں اس کے پاس چلتا ہوں ۔ اسے ٹھیک کر لوں گا ۔ وہاں جا کر ابوجہل نے کہا عتبہ تم نے جو ہمارے پاس آنا جانا چھوڑا اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی معلوم ہوتی ہے کہ تجھے اس کا دستر خوان پسند آ گیا اور تو بھی اسی کی طرف جھک گیا ہے ۔ حاجب مندی بری چیز ہے میرا خیال ہے کہ ہم آپس میں چندہ کر کے تیری حالت ٹھیک کر دیں ، تاکہ اس مصیبت اور ذلت سے تو چھوٹ جائے ۔ اس سے ڈرنے کی اور نئے مذہب کی تجھے ضرورت نہ رہے ۔ اس پر عتبہ بہت بگڑا اور کہنے لگا مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا غرض ہے ؟ اللہ کی قسم کی اب اس سے کبھی بات تک نہ کروں گا ۔ اور تم میری نسبت ایسے ذلیل خیالات ظاہر کرتے ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ قریش میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مالدار نہیں ۔ بات صرف یہ ہے کہ میں تم سب کو کہنے سے ان کے پاس گیا سارا قصہ کہہ سنایا بہت باتیں کہیں میرے جواب میں پھر جو کلام اس نے پڑھا واللہ نہ تو وہ شعر تھا نہ کہانت کا کلام تھا نہ جادو وغیرہ تھا ۔ وہ جب اس سورۃ کو پڑھتے ہوئے آیت «فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّثَمُوْدَ» ۱؎ (41-فصلت:13) ، تک پہنچے تو میں نے ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور انہیں رشتے ناتے یاد دلانے لگا کہ للہ رک جاؤ مجھے تو خوف لگا ہوا تھا کہ کہیں اسی وقت ہم پر وہ عذاب آ نہ جائے اور یہ تو تم سب کو معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ۔۱؎ (بغوی فی التفسیر:1863) سیرۃ ابن اسحاق میں یہ واقعہ دوسرے طریق پر ہے اس میں ہے کہ قریشیوں کی مجلس ایک مرتبہ جمع تھی ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ عتبہ قریش سے کہنے لگا کہ اگر تم سب کا مشورہ ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں انہیں کچھ سمجھاؤں اور کچھ لالچ دوں اگر وہ کسی بات کو قبول کر لیں تو ہم انہیں دے دیں اور انہیں ان کے کام سے روک دیں ۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی تعداد معقول ہو گئی تھی اور روز افزوں ہوتی جاتی تھی ۔ سب قریشی اس پر رضامند ہوئے ۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ” برادر زادے تم عالی نسب ہو تم ہم میں سے ہو ہماری آنکھوں کے تارے اور ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہو ۔ افسوس کہ تم اپنی قوم کے پاس ایک عجیب و غریب چیز لائے ہو تم نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی ۔ تم نے ان کے عقل مندوں کو بیوقوف قرار دیا ۔ تم نے ان کے معبودوں کی عیب جوئی کی ۔ تم نے ان کے دین کو برا کہنا شروع کیا ۔ تم نے ان کے بڑے بوڑھوں کو کافر بنایا اب سن لو آج میں آپ کے پاس ایک آخری اور انتہائی فیصلے کیلئے آیا ہوں ، میں بہت سی صورتیں پیش کرتا ہوں ان میں سے جو آپ کو پسند ہو قبول کیجئے ۔ للہ اس فتنے کو ختم کر دیجئیے “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جو تمہیں کہنا ہو کہو میں سن رہا ہوں } ۔ اس نے کہا ” سنو ! اگر تمہارا ارادہ اس چال سے مال کے جمع کرنے کا ہے تو ہم سب مل کر تمہارے لیے اتنا مال جمع کر دیتے ہیں کہ تم سے بڑھ کر مالدار سارے قریش میں کوئی نہ ہو ۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ اس سے اپنی سرداری کا ہے تو ہم سب مل کر آپ کو اپنا سردار تسلیم کر لیتے ہیں ۔ اور اگر آپ بادشاہ بننا چاہتے ہیں تو ہم ملک آپ کو سونپ کر خود رعایا بننے کیلئے بھی تیار ہیں ، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی جن وغیرہ کا اثر ہے تو ہم اپنا مال خرچ کر کے بہتر سے بہتر طبیب اور جھاڑ پھونک کرنے والے مہیا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کراتے ہیں ۔ ایسا ہو جاتا ہے کہ بعض مرتبہ تابع جن اپنے عامل پر غالب آ جاتا ہے تو اسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے “ ۔ اب عتبہ خاموش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی سب بات کہہ چکے ؟ } کہا ہاں ، فرمایا : { اب میری سنو } ۔ وہ متوجہ ہو گیا ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر اس سورت کی تلاوت شرع کی عتبہ با ادب سنتا رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کی آیت پڑھی اور سجدہ کیا ، فرمایا ابوالولید ! میں کہہ چکا اب تجھے اختیار ہے } ۔ عتبہ یہاں سے اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اس کے چہرے کو دیکھتے ہی ہر ایک کہنے لگا کہ عتبہ کا حال بدل گیا ۔ اس سے پوچھا کہو کیا بات رہی ؟ اس نے کہا میں نے تو ایسا کلام سنا ہے جو واللہ اس سے پہلے کبھی نہیں سنا ۔ واللہ ! نہ تو وہ جادو ہے نہ شعر کوئی ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے ۔ سنو قریشیو ! میری مان لو اور میری اس جچی تلی بات کو قبول کر لو ۔ اسے اس کے خیالات پر چھوڑ دو نہ اس کی مخالفت کرو نہ اتفاق ۔ اس کی مخالفت میں سارا عرب کافی ہے اور جو یہ کہتا ہے اس میں تمام عرب اس کا مخالف ہے وہ اپنی تمام طاقت اس کے مقابلہ میں صرف کر رہا ہے یا تو وہ اس پر غالب آ جائیں گے اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو تم سستے چھوٹے یا یہ ان پر غالب آیا تو اس کا ملک تمہارا ہی ملک کہلائے گا اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی اور سب سے زیادہ اس کے نزدیک مقبول تم ہی ہو گے ۔ یہ سن کر قریشیوں نے کہا ابوالولید قسم اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ پر جادو کر دیا ۔ اس نے جواب دیا میری اپنی جو رائے تھی آزادی سے کہہ چکا ، اب تمہیں اپنے فعل کا اختیار ہے ۔۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:206/2:ضعیف)