سورة الزمر - آیت 32

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور سچ کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آیا، کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مشرکین کی سزا اور موحدین کی جزا مشرکین نے اللہ پر بہت جھوٹ بولا تھا اور طرح طرح کے الزام لگائے تھے ، کبھی اس کے ساتھ دوسرے معبود بتاتے تھے ، کبھی فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں شمار کرنے لگتے تھے ، کبھی مخلوق میں سے کسی کو اس کا بیٹا کہہ دیا کرتے تھے ، جن تمام باتوں سے اس کی بلند و بالا ذات پاک اور برتر تھی ۔ ساتھ ہی ان میں دوسری بدخصلت یہ بھی تھی کہ جو حق انبیاء علیہم السلام کی زبانی اللہ تعالیٰ نازل فرماتا یہ اسے بھی جھٹلاتے ، پس فرمایا کہ ’ یہ سب سے بڑھ کر ظالم ہیں ‘ ۔ پھر جو سزا انہیں ہونی ہے اس سے انہیں آگاہ کر دیا کہ ’ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ،جو مرتے دم تک انکار و تکذیب پر ہی رہیں ‘ ۔ ان کی بدخصلت اور سزا کا ذکر کر کے پھر مومنوں کی نیک خو اور ان کی جزا کا ذکر فرماتا ہے کہ ’ جو سچائی کو لایا اور اسے سچا مانا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرائیل علیہ السلام اور ہر وہ شخص جو کلمہ توحید کا اقراری ہو ۔ اور تمام انبیاء علیہم السلام اور ان کی ماننے والی ان کی مسلمان امت ‘ ۔ یہ قیامت کے دن یہی کہیں گے کہ جو تم نے ہمیں دیا اور جو فرمایا ہم اسی پر عمل کرتے رہے ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت میں داخل ہیں ۔ آپ بھی سچائی کے لانے والے ، اگلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل ہوا تھا اسے ماننے والے تھے اور ساتھ ہی یہی وصف تمام ایمان داروں کا تھا کہ وہ اللہ پر فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں پر ایمان رکھنے والے تھے ۔ ربیع بن انس کی قرأت میں«وَالَّذِیْنَ جَاءُ وْابالصِّدْقِ» ہے ۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں سچائی کو لانے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اسے سچ ماننے والے مسلمان ہیں یہی متقی پرہیزگار اور پارسا ہیں ۔ جو اللہ سے ڈرتے رہے اور شرک کفر سے بچتے رہے ۔ ان کے لیے جنت میں جو وہ چاہیں سب کچھ ہے ۔ جب طلب کریں گے پائیں گے ۔ یہی بدلہ ہے ان پاک باز لوگوں کا ، رب ان کی برائیاں تو معاف فرما دیتا ہے اور نیکیاں قبول کر لیتا ہے ۔ جیسے دوسری آیت میں « أُولٰئِکَ الَّذِینَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَیِّئَاتِہِمْ فِی أَصْحَابِ الْجَنَّۃِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِی کَانُوا یُوعَدُونَ» ۱؎ (46-الأحقاف:16) ، ’ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کی نیکیاں ہم قبول کر لیتے ہیں اور برائیوں سے درگزر فرما لیتے ہیں ۔ یہ جنتوں میں رہیں گے ۔ انہیں بالکل سچا اور صحیح صحیح وعدہ دیا جاتا ہے ‘ ۔