سورة الزمر - آیت 7

إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اگر تم ناشکری کرو تو یقیناً اللہ تم سے بہت بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمھارے لیے پسندکرے گا اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، پھر تمھارا لوٹنا تمھارے رب ہی کی طرف ہے تو وہ تمھیں بتلائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔ یقیناً وہ سینوں والی بات کو خوب جاننے والا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے فرماتا ہے کہ ’ ساری مخلوق اللہ کی محتاج ہے اور اللہ سب سے بے نیاز ہے ‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کا فرمان قرآن میں منقول ہے کہ «وَقَالَ مُوسَیٰ إِن تَکْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:8) ’ اگر تم اور روئے زمین کے سب جاندار اللہ سے کفر کرو تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں وہ ساری مخلوق سے بےپرواہ اور پوری تعریفوں والا ہے ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ { اے میرے بندو ! تمہارے سب اول و آخر انسان و جن مل ملا کر بدترین شخص کا سا دل بنا لو تو میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آئے گی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2577) ہاں اللہ تمہاری ناشکری سے خوش نہیں نہ وہ اس کا تمہیں حکم دیتا ہے اور اگر تم اس کی شکر گزاری کرو گے تو وہ اس پر تم سے رضامند ہو جائے گا اور تمہیں اپنی اور نعمتیں عطا فرمائے گا ۔ ہر شخص وہی پائے گا جو اس نے کیا ہو ایک کے بدلے دوسرا پکڑا نہ جائے گا اللہ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ۔ انسان کو دیکھو کہ اپنی حاجت کے وقت تو بہت ہی عاجزی انکساری سے اللہ کو پکارتا ہے اور اس سے فریاد کرتا رہتا ہے ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَاِذَا مَسَّکُمُ الضٰرٰ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰیکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:67) ، یعنی ’ جب دریا اور سمندر میں ہوتے ہیں اور وہاں کوئی آفت آتی دیکھتے ہیں تو جن جن کو اللہ کے سوا پکارتے تھے سب کو بھول جاتے ہیں اور خالص اللہ کو پکارنے لگتے ہیں لیکن نجات پاتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں انسان ہے ہی ناشکرا ‘ ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ جہاں دکھ درد ٹل گیا پھر تو ایسا ہو جاتا ہے گویا مصیبت کے وقت اس نے ہمیں پکارا ہی نہ تھا اس دعا اور گریہ و زاری کو بالکل فراموش کر جاتا ہے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے«وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضٰرٰ دَعَانَا لِجَنبِہِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ کَأَن لَّمْ یَدْعُنَا إِلَیٰ ضُرٍّ مَّسَّہُ» ۱؎ (10-یونس:12) ، یعنی ’ تکلیف کے وقت تو انسان ہمیں اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت بڑی حضور قلبی سے پکارتا رہتا ہے لیکن اس تکلیف کے ہٹتے ہی وہ بھی ہم سے ہٹ جاتا ہے گویا اس نے دکھ درد کے وقت ہمیں پکارا ہی نہ تھا ۔ بلکہ عافیت کے وقت اللہ کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے ‘ ۔ پس اللہ فرماتا ہے کہ ’ ایسے لوگ اپنے کفر سے گو کچھ یونہی سا فائدہ اٹھا لیں ‘ ۔ اس میں ڈانٹ ہے اور سخت دھمکی ہے جیسے فرمایا«قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِیرَکُمْ إِلَی النَّارِ» ۱؎ (14-ابراھیم:30) ’ کہدیجئیے کہ فائدہ حاصل کر لو آخری جگہ تو تمہاری جہنم ہی ہے ‘ ،اور فرمان ہے «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) ’ ہم انہیں کچھ فائدہ دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بے بس کر دیں گے ‘ ۔