قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ
کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں سے ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں میں آپ اعلان کر دیں کہ میں تبلیغ دین پر اور احکام قرآن پر تم سے کوئی اجرت و بدلہ نہیں مانگتا ۔ اس سے میرا مقصود کوئی دنیوی نفع حاصل کرنا نہیں اور نہ میں تکلف کرنے والا ہوں ، کہ اللہ نے نہ اتارا ہو اور میں جوڑ لوں ۔ مجھے تو جو کچھ پہنچایا جاتا ہے وہی میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں نہ کمی کروں نہ زیادتی اور میرا مقصود اس سے صرف رضائے رب اور مرضی مولیٰ ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں لوگو ! جسے کسی مسئلہ کا علم ہو وہ اسے لوگوں سے بیان کر دے اور جو نہ جانتا ہو وہ کہدے کہ اللہ جانے ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تکلف کرنے والا نہیں ہوں ۔ یہ قرآن تمام انسانوں اور جنوں کے لیے نصیحت ہے جیسے اور آیت میں ہے «لِأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّکُمْ لَتَشْہَدُونَ أَنَّ مَعَ اللہِ آلِہَۃً أُخْرَیٰ ۚ قُل لَّا أَشْہَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا ہُوَ إِلٰہٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِی بَرِیءٌ مِّمَّا تُشْرِکُونَ» ( 6-الانعام : 19 ) تاکہ میں تمہیں اور جن جن لوگوں تک یہ پہنچے آگاہ اور ہوشیار کر دوں اور آیت میں ہے کہ«وَمَن یَکْفُرْ بِہِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہُ» ( 11-ہود : 17 ) جو شخص بھی اس سے کفر کرے وہ جہنمی ہے ۔ میری باتوں کی حقیقت میرے کلام کی تصدیق میرے بیان کی سچائی میرے زبان کی صداقت تمہیں ابھی ابھی معلوم ہو جائے گی یعنی مرتے ہی ، قیامت کے قائم ہوتے ہی ۔ موت کے وقت یقین آ جائے گا اور میری کہی ہوئی خبریں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے ۔ «واللہ اعلم بالصواب» ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۃ ص کی تفسیم ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ کے انعام و احسان پر اس کا شکر ہے ۔