كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اللہ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جنھوں نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا اور (اس کے بعد کہ) انھوں نے شہادت دی کہ یقیناً یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح دلیلیں آچکیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
توبہ اور قبولیت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ایک انصار مرتد ہو کر مشرکین میں جا ملا پھر پچھتانے لگا اور اپنی قوم سے کہلوایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ ان کے دریافت کرنے پر یہ آیتیں اتریں اس کی قوم نے اسے کہلوا بھیجا وہ پھر توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان ہو کر حاضر ہو گیا ( ابن جریر ) نسائی حاکم اور ابن حبان میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ (مسند احمد:247/1:صحیح) ۱؎ امام حاکم اسے صحیح الاسناد کہتے ہیں ، مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حارث بن سویدرضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا پھر قوم میں مل گیا اور اسلام سے پھر گیا اس کے بارے میں یہ آیتیں اتریں اس کی قوم کے ایک شخص نے یہ آیتیں اسے پڑھ کر سنائیں تو اس نے کہا جہاں تک میرا خیال ہے اللہ کی قسم تو سچا ہے اور اللہ کے نبی تو تجھ سے بہت ہی زیادہ سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچا ہے پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے اسلام لائے اور بہت اچھی طرح اسلام کو نبھایا۔ «بینات» سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر حجتوں اور دلیلوں کا بالکل واضح ہو جانا ہے پس جو لوگ ایمان لائے رسول کی حقانیت مان چکے دلیلیں دیکھ چکے پھر شرک کے اندھیروں میں جا چھپے یہ لوگ مستحق ہدایت نہیں کیونکہ آنکھوں کے ہوتے ہوئے اندھے پن کو انہوں نے پسند کیا اللہ تعالیٰ ناانصاف لوگوں میں رہبری نہیں کرتا ، انہیں اللہ لعنت کرتا ہے اور اس کی مخلوق بھی ہمیشہ لعنت کرتی ہے نہ تو کسی وقت ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی نہ موقوفی ۔ پھر اپنا لطف و احسان رافت و رحمت کا بیان فرماتا ہے کہ اس بدترین جرم کے بعد بھی جو میری طرف جھکے اور اپنے بداعمال کی اصلاح کر لے میں بھی اس سے در گزر کر لیتا ہوں ۔