قَالُوا طَائِرُكُم مَّعَكُمْ ۚ أَئِن ذُكِّرْتُم ۚ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
انھوں نے کہا تمھاری نحوست تمھارے ساتھ ہے۔ کیا اگر تمھیں نصیحت کی جائے، بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
رسولوں کا جواب رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو ۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں ۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ یہی بات فرعونیوں نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی ۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی توکہتے ہم تو اس کے مستحق ہی تھے ۔ اور اگر کوئی رنج پہنچتا تو موسیٰعلیہ السلام اور مومنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے ۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا «أَلَا إِنَّمَا طَائِرُہُمْ عِندَ اللہِ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ» ( 7-سورۃ الأعراف : 31 ) یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے ۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا ۔ خود جناب پیغمبر آخر الزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے «وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُولُوا ہٰذِہِ مِنْ عِندِکَ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِندِ اللہِ فَمَالِ ہٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ حَدِیثًا» ( 4-سورۃ النساء : 78 ) یعنی اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے ۔ کہدیجئیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے ۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی ؟ پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی ، تمہاری خیر خواہی کی ، تمہیں بھلی راہ سمجھائی ۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے ؟ اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے ؟ اور خوفزدہ کرنے لگے ؟ اور مقابلہ پر اتر آئے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو ۔ حدود الہیہ سے تجاوز کر جاتے ہو ۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں ۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو ۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے ؟ افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے ۔