سورة سبأ - آیت 15

لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ ۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍ ۖ كُلُوا مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ ۚ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ یقیناً سبا کے لیے ان کے رہنے کی جگہ میں ایک نشانی تھی۔ دو باغ دائیں اور بائیں ( جانب) سے۔ اپنے رب کے دیے سے کھاؤ اور اس کا شکر کرو، پاکیزہ شہر ہے اور بے حد بخشنے والا رب ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

قوم سبا کا تفصیلی تذکرہ قوم سبا یمن میں رہتی تھی ۔ تبع بھی ان میں سے ہی تھے ۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں ۔ یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے ۔ چین آرام سے زندگی گزار رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ان کے پاس آئے انہیں شکر کرنے کی تلقین کی ۔ رب کی وحدانیت کی طرف بلایا اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا ۔ کچھ زمانے تک وہ یونہی رہے لیکن پھر جب کہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی احکام اللہ بےپرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہو گئیں ۔ جس کی تفصیل یہ ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سبا کسی عورت کا نام ہے ۔ یا مرد کا یا جگہ کا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک مرد تھا جس کے دس لڑکے تھے جن میں سے چھ تو یمن میں جا بسے تھے اور چار شام میں ۔ مذحج ، کندہ ، ازد ، اشعری ، اغار ، حمیریہ یہ چھ قبیلے یمن میں ۔ نجم ، جذام ، عاملہ اور غسان یہ چار قبیلے شام میں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:316/1:حسن) [ مسند احمد ] { فردہ بن مسیک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنی قوم میں سے ماننے والوں اور آگے بڑھنے والوں کو لے کر نہ ماننے اور پیچھے ہٹنے والوں سے لڑوں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ جب میں جانے لگا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا دیکھو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا نہ مانیں تب جہاد کی تیاری کرنا ۔ میں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ سبا کس کا نام ہے ؟ تو آپ کا جواب تقریباً وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ انمار میں سے بجیلہ اور خثعم بھی ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3222،قال الشیخ الألبانی:۔حسن صحیح) ایک اور مطول روایت میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ فردہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جاہلیت کے زمانے میں قوم سبا کی عزت تھی مجھے اب ان کے ارتداد کا خوف ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے جہاد کروں ۔ آپ نے فرمایا ان کے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ لیکن اس میں غرابت ہے اس سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ، حالانکہ سورت مکیہ ہے ۔ محمد بن اسحاق سبا کا نسب نامہ اس طرح بیان کرتے ہیں عبد شمس بن العرب بن قحطان اسے سبا اس لیے کہتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے عرب میں دشمن کے قید کرنے کا رواج ڈالا تھا ۔ اس وجہ سے اسے رائش بھی کہتے ہیں ۔ مال کو ریش اور ریاش بھی عربی میں کہتے ہیں ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اس بادشاہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ کی پیشن گوئی کی تھی ۔ کہ ملک کا مالک ہمارے بعد ایک نبی ہو گا جو حرم کی عزت کرے گا ۔ اس کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے ، جن کے سامنے دنیا کے بادشاہ سرنگوں ہو جائیں گے پھر ہم میں بھی بادشاہت آئے گی اور بنو قحطان کے ایک نبی بھی ہوں گے اس نبی کا نام احمد ہو گا [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کاش کہ میں بھی ان کی نبوت کے زمانے کو پالیتا تو ہر طرح کی خدمت کو غنیمت سمجھتا ۔ لوگو ! جب بھی اللہ کے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں تو تم پر فرض ہے کہ ان کا ساتھ دو اور ان کے مددگار بن جاؤ ۔ اور جو بھی آپ سے ملے اس پر میری جانب سے فرض ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے [ اکیل ہمدانی ] قحطان کے بارے میں تین قول ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ ارم بن سام بن نوح کی نسل میں سے ہے ۔ دوسرا یہ کہ عابر یعنی ہود علیہ السلام کی نسل میں سے ہے ۔ تیسرا یہ کہ اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل سے ہے ۔ اس سب کو تفصیل کے ساتھ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الابناہ میں ذکر کیا ہے ۔ بعض روایتوں میں جو آیا ہے کہ سبا عرب میں سے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کی نسل سے عرب ہوئے ۔ ان کا نسل ابراہیمی میں سے ہونا مشہور نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» صحیح بخاری میں ہے کہ { قبیلہ اسلم جب تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے نکلے تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل ! تیر اندازی کئے جاؤ تمہارے والد بھی پورے تیر انداز تھے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2899) اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبا کا سلسلہ نسب خلیل الرحمن علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔ اسلم انصار کا ایک قبیلہ تھا اور انصار سارے کے سارے غسان میں سے ہیں اور یہ سب یمنی تھے ۔ سبا کی اولاد ہیں ۔ یہ لوگ مدینے میں اس وقت آئے جب سیلاب سے ان کا وطن تباہ ہو گیا ۔ ایک جماعت یہاں آ کر بسی تھی دوسری شام چلی گئی ۔ انہیں غسانی اس لیے کہتے ہیں کہ اسی نام کی پانی والی ایک جگہ پر یہ ٹھہرے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مشلل کے قریب ہے ۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک پانی والی جگہ یا اس کنویں کا نام غسان تھا ۔ یہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی دس اولادیں تھیں اس سے مراد صلبی اولادیں نہیں کیونکہ بعض بعض دو دو تین تین نسلوں بعد کے بھی ہیں ۔ جیسے کہ کتب انساب میں موجود ہے ۔ جو شام اور یمن میں جا کر آباد ہوئے یہ بھی سیلاب کے آنے کے بعد کا ذکر ہے ۔ بعض وہیں رہے بعض ادھر ادھر چلے گئے ۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے ۔ جہاں سے نہریں اور چشمے بہہ بہہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے ان کے قدیمی بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوا دیا تھا جس دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہو گیا تھا ۔ اور بصورت دریا جاری رہا کرتا تھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگا دی تھیں ۔ پانی کی کثرت اور زمین کی عمدگی کی وجہ سے یہ خطہ بہت ہی زرخیز اور ہرا بھرا رہا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ کوئی عورت اپنے سر پر جھلی رکھ کر چلتی تھی ۔ کچھ دور جانے تک پھلوں سے وہ جھلی بالکل بھر جاتی تھی ۔ درختوں سے پھل خودبخود جو جھڑتے تھے وہ اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی ۔ یہ دیوار مارب میں تھی صنعاء سے تین مراحل پر تھی اور سد مارب کے نام سے مشہور تھی ۔ آب و ہوا کی عمدگی ، صحت مزاج اور اعتدال عنایت الہٰیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی ، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے ۔ یہ اس لیے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان سے اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں ۔ یہ تھی وہ نشانی قدرت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیو اور اس کے شکر میں لگے رہو ۔ لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو ، اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے ۔ جیسے کہ ہدہد نے سلیمان علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ «فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہِ وَجِئْتُکَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَقِینٍ» ۱؎ (27-النمل:22-24) الخ یعنی ’ میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے ۔ رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں ۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر رکھا ہے ۔ بے راہ ہو رہے ہیں ‘ مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے ۔ بالاخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کر دی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئی پانی کی ریل پیل ہو گئی ان دریاؤں کے ، چشموں کے ، بارش کے ، نالوں کے ، سب پانی آ گئے ان کی بستیاں ، ان کے محلات ، ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہو گئیں ۔ ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا ۔ پیلو ، جھاؤ ، کیکر ، ببول اور ایسے ہی بےمیوہ بدمزہ بےکار درخت اگتے تھے ۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کار آمد تھے ۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خار دار اور بہت کم پھل دار تھے ۔ یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زحمتوں میں مبتلا ہو گئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ ابو خیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں گناہوں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے روز گار میں تنگی واقع ہو لذتوں میں سختی آ جائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا وہاں فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا ۔