وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ
اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا کیا ہم تمھیں وہ آدمی بتائیں جو تمھیں خبر دیتا ہے کہ جب تم ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاؤ گے، پوری طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا جانا، تو بلاشبہ تم یقیناً بالکل نئی پیدائش میں ہوگے۔
کافروں کی جہالت کافر اور ملحد جو قیامت کے آنے کو محال جانتے تھے اور اس پر اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے تھے ان کے کفریہ کلمات کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہ آپس میں کہتے تھے ” لو اور سنو ہم میں ایک صاحب ہیں جو فرماتے ہیں کہ جب مر کر مٹی میں مل جائیں گے اور چورا چورا اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اس کے بعد بھی ہم زندہ کئے جائیں گے اس شخص کی نسبت دو ہی خیال ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ہوش و حواس کی درستی میں وہ عمداً اللہ کے ذمے ایک جھوٹ بول رہا ہے اور جو اس نے نہیں فرمایا وہ اس کی طرف نسبت کر کے یہ کہہ رہا ہے اور اگر یہ نہیں تو اس کا دماغ خراب ہے ، مجنون ہے ، بے سوچے سمجھے جو جی میں آئے کہہ دیتا ہے “ اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتا ہے کہ یہ دونوں باتیں نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ، نیک ہیں ، راہ یافتہ ہیں ، دانا ہیں ، باطنی اور ظاہری بصیرت والے ہیں ۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ منکر لوگ جہالت اور نادانی سے کام لے رہے ہیں ۔ اور غور و فکر سے بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ جس کی وجہ سے حق بات اور سیدھی راہ ان سے چھوٹ جاتی ہے اور وہ بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ کیا اس کی قدرت میں تم کوئی کمی دیکھ رہے ہو ۔ جس نے محیط آسمان اور بسیط زمین پیدا کر دی ۔ جہاں جاؤ نہ آسمان کا سایہ ختم ہو نہ زمین کا فرش ۔ جیسے فرمان ہے «وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ» ۱؎ (51-الذاریات:47-48) ’ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں بنایا اور ہم کشادگی والے ہیں ۔ زمین کو ہم نے ہی بچھایا اور ہم بہت اچھے بچھانے والے ہیں ۔ ‘ یہاں بھی فرمایا کہ آگے دیکھو پیچھے دیکھو اسی طرح دائیں دیکھو بائیں کی طرف التفات کرو تو وسیع آسمان اور بسیط زمین ہی نظر آئے گی ۔ اتنی بڑی مخلوق کا خالق اتنی زبردست قدرتوں پر قادر کیا تم جیسی چھوٹی سی مخلوق کو فنا کر کے پھر پیدا کرنے پر قدرت کھو بیٹھے ؟ وہ تو قادر ہے کہ اگر چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے ۔ یا آسمان تم پر توڑ دے یقیناً تمہارے ظلم اور گناہ اسی قابل ہیں ۔ لیکن اللہ کا حکم اور عفو ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ جس میں عقل ہے جس میں دور بینی کا مادہ ہو جس میں غور و فکر کی عادت ہو ۔ جس کی اللہ کی طرف جھکنے والی طبیعت ہو ۔ جس کے سینے میں دل ، دل میں حکمت اور حکمت میں نور ہو وہ تو ان زبردست نشانات کو دیکھنے کے بعد اس قادر و خالق اللہ کی اس قدرت میں شک کر ہی نہیں سکتا کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہے ۔ آسمانوں جیسے شامیانے اور زمینوں جیسے فرش جس نے پیدا کر دئیے اس پر انسان کی پیدائش کیا مشکل ہے ؟ جس نے ہڈیوں ، گوشت ، کھال کو ابتداً پیدا کیا ۔ اسے ان کے سڑ گل جانے اور ریزہ ریزہ ہو کر جھڑ جانے کے بعد اکٹھا کر کے اٹھا بٹھانا کیا بھاری ہے ؟ اسی کو اور آیت میں فرمایا «اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ» ۱؎ (36-یس:81) ، یعنی ’ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کر دیا کیا وہ ان کے مثل پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ بے شک وہ قادر ہے ‘ اور آیت میں ہے «لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (40-غافر:57) یعنی ’ انسانوں کی پیدائش سے بہت زیادہ مشکل تو آسمان و زمین کی پیدائش ہے ۔ لیکن اکثر لوگ بےعلمی برتتے ہیں ۔ ‘