إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔
فرائض، حدود امانت ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ” امانت سے مراد یہاں اطاعت ہے “ ۔ اسے آدم علیہ السلام پر پیش کرنے سے پہلے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن وہ بار امانت نہ اٹھا سکے اور اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کیا ۔ جناب باری عزاسمہ نے اسے اب آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام پر پیش کیا کہ ’ یہ سب تو انکار کر رہے ہیں ، تم کہو ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا اللہ اس میں بات کیا ہے ؟ فرمایا ’ اگر بجا لاؤ گے ثواب پاؤ گے اور برائی کی سزا پاؤ گے ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ” میں تیار ہوں “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ” امانت سے مراد فرائض ہیں دوسروں پر جو پیش کیا تھا یہ بطور حکم کے نہ تھا بلکہ جواب طلب کیا تھا تو ان کا انکار اور اظہار مجبوری گناہ نہ تھا بلکہ اس میں ایک قسم کی تعظیم تھی کہ باوجود پوری طاقت کے اللہ کے خوف سے تھرا اٹھے کہ کہیں پوری ادائیگی نہ ہو سکے اور مارے نہ جائیں ۔ لیکن انسان جو کہ بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھا لیا “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ ” عصر کے قریب یہ امانت اٹھائی تھی اور مغرب سے پہلے ہی خطا سرزد ہو گئی “ ۔ ابی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ” عورت کی پاکدامنی بھی اللہ کی امانت ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے دین فرائض حدود سب اللہ کی امانت ہیں ۔ جنابت کا غسل بھی بقول بعض امانت ہے ۔ زید بن اسلام فرماتے ہیں تین چیزیں اللہ کی امانت ہیں غسل جنابت ، روزہ اور نماز ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں سب کی سب امانت میں داخل ہیں ۔ تمام احکام بجا لانے تمام ممنوعات سے پرہیز کرنے کا انسان مکلف ہے ۔ جو بجالائے گا ثواب پائے گا جہاں گناہ کرے گا سزا پائے گا ۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” خیال کرو آسمان باوجود اس پختگی ، زینت اور نیک فرشتوں کا مسکن ہونے کے اللہ کی امانت برداشت نہ کر سکا جب اس نے یہ معلوم کر لیا کہ بجا آوری اگر نہ ہوئی تو عذاب ہوگا ۔ زمین صلاحیت کے باوجود اور سختی کے لمبائی اور چوڑائی کے ڈرگئی اور اپنی عاجزی ظاہر کرنے لگی ۔ پہاڑ باوجود اپنی بلندی اور طاقت اور سختی کے اس سے کانپ گئے ، اور اپنی لاچاری ظاہر کرنے لگے “ ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” پہلے آسمانوں نے جواب دیا اور کہا یوں تو ہم مطیع ہیں لیکن ہاں ہمارے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ عدم بجا آوری کی صورت میں بہت بڑا خطرہ ہے ۔ پھر زمین سے کہا گیا کہ ’ اگر پوری اتری تو فضل و کرم سے نواز دوں گا ‘ ۔ لیکن اس نے کہا یوں تو ہر طرح طابع فرمان ہوں جو فرمایا جائے عمل کروں لیکن میری وسعت سے تو یہ باہر ہے ۔ پھر پہاڑوں سے کہا گیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ نافرمانی تو ہم کرنے کے نہیں امانت ڈال دی جائے تو اٹھالیں گے لیکن یہ بس کی بات نہیں ہمیں معاف فرمایا جائے ۔ پھر آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام سے کہا گیا انہوں نے کہا ” اے اللہ اگر پورا اتروں تو کیا ملے گا ؟ “ فرمایا ’ بڑی بزرگی ہو گی جنت ملے گی رحم و کرم ہو گا اور اگر اطاعت نہ کی نافرمانی کی تو پھر سخت سزا ہوگی اور آگ میں ڈال دیئے جاؤ گے ‘ ۔ انہوں نے کہا ” یا اللہ منظور ہے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” آسمان نے کہا میں نے ستاروں کو جگہ دی فرشتوں کو اٹھا لیا لیکن یہ نہیں اٹھا سکوں گا یہ تو فرائض کا بوجھ ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ زمین نے کہا مجھ میں تو نے درخت بوئے دریا جاری کئے ۔ لوگوں کو بسائے گا لیکن یہ امانت تو میرے بس کی نہیں ۔ میں فرض کی پابند ہو کر ثواب کی امید پر عذاب کے احتمال کو نہیں اٹھاسکتی ۔ پہاڑوں نے بھی یہی کہا لیکن انسان نے لپک کر اسے اٹھا لیا “ ۔ بعض روایات میں ہے کہ ” تین دن تک وہ گریہ زاری کرتے رہے اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے رہے لیکن انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا “ ۔ اللہ نے اسے فرمایا ’ اب سن اگر تو نیک نیت رہا تو میری اعانت ہمیشہ تیرے شامل حال رہے گی تیری آنکھوں پر میں دو پلکیں کر دیتا ہوں کہ میری ناراضگی کی چیزوں سے تو انہیں بند کر لے ۔ میں تیری زبان پر دو ہونٹ بنا دیتا ہوں کہ جب وہ مرضی کے خلاف بولنا چاہے تو تو اسے بند کر لے ۔ تیری شرمگاہ کی حفاظت کیلئے میں لباس اتارتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف تو اسے نہ کھولے ‘ ۔ زمین و آسمان نے ثواب و عذاب سے انکار کر دیا اور فرمانبرداری میں مسخر رہے لیکن انسانوں نے اسے اٹھا لیا ۔ ایک بالکل غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ { امانت اور وفا انسانوں پر نبیوں کی معرفت نازل ہوئیں ۔ اللہ کا کلام ان کی زبانوں میں اترا نبیوں کی سنتوں سے انہوں نے ہر بھلائی برائی معلوم کر لی ۔ ہر شخص نیکی بدی کو جان گیا ۔ یاد رکھو ! سب سے پہلے لوگوں میں امانت داری تھی پھر وفا اور عہد کی نگہبانی اور ذمہ داری کو پورا کرنا تھا ۔ امانت داری کے دھندلے سے نشان لوگوں کے دلوں پر رہ گئے ۔ کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہیں ۔ عالم عمل کرتے ہیں جاہل جانتے ہیں لیکن انجان بن رہے ہیں اب یہ امانت وفا مجھ تک اور میری امت تک پہنچی ۔ یاد رکھو اللہ اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے آپ کو ہلاک کر لے ۔ اسے چھوڑ کر غفلت میں پڑ جائے ۔ لوگو ! ہوشیار رہو اپنے آپ پر نظر رکھو ۔ شیطانی وسوسوں سے بچو ۔ اللہ تمہیں آزما رہا ہے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28689:ضعیف) { حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص ایمان کے ساتھ ان چیزوں کو لائے گا جنت میں جائے گا ۔ پانچوں وقتوں کی نماز کی حفاظت کرتا ہو ، وضو ، رکوع ، سجدہ اور وقت سجدہ اور وقت سمیت زکوٰۃ ادا کرتا ہو ۔ دل کی خوشی کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم نکالتا ہو ۔ سنو واللہ یہ بغیر ایمان کے ہو ہی نہیں سکتا اور امانت کو ادا کرے } ۔ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا جنابت کا فرضی غسل ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اپنے دین میں سے کسی چیز کی اس کے سوا امانت نہیں دی }۔ ۱؎ (سنن ابوداود:429،قال الشیخ الألبانی:حسن) تفسیر ابن جریر میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ کی راہ کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر امانت کی خیانت کو نہیں مٹاتا ان خائنوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا جاؤ ان کی امانتیں ادا کرو یہ جواب دیں گے اللہ کہاں سے ادا کریں ؟ دنیا تو جاتی رہی تین مرتبہ یہی سوال جواب ہو گا پھر حکم ہوگا کہ انہیں ان کی ماں ہاویہ میں لے جاؤ ۔ فرشتے دھکے دیتے ہوئے گرا دیں گے ۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو انہیں اسی امانت کی ہم شکل جہنم کی آگ کی چیز نظر پڑے گی ۔ یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھیں گے جب کنارے تک پہنچیں گے تو وہاں پاؤں پھسل جائے گا ۔ پھر گر پڑیں گے اور جہنم کے نیچے تک گرتے چلے جائیں گے ۔ پھر لائیں گے پھر گریں گے ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے ۔ امانت وضو میں بھی ہے ۔ نماز میں بھی امانت بات چیت میں بھی ہے اور ان سب سے زیادہ امانت ان چیزوں میں ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائیں } ۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کیا حدیث بیان فرما رہے ہیں؟ تو آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہا ہاں ٹھیک ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28694:ضعیف) سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دو حدیثیں سنی ہیں ۔ ایک کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دوسری کے ظہور کا مجھے انتظار ہے ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { امانت لوگوں کی جبلت میں اتاری گئی } پھر قرآن اترا حدیثیں بیان ہوئیں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کی بابت فرمایا : { انسان سوئے گا جو اس کے دل سے امانت اٹھ جائے گی اور ایسا نشان رہ جائے گا جیسے کسی کے پیر پر کوئی انگارہ لڑھک کر آ گیا ہو اور پھپھولا پڑ گیا ہو کہ ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن اندر کچھ بھی نہیں } ۔ پھر آپ نے ایک کنکر لے کر اسے اپنے پیر پر لڑھکا کر دکھا دیا کہ اس طرح لوگ لین دین خرید و فروخت کیا کریں گے ۔ لیکن تقریباً ایک بھی ایماندار نہ ہوگا ۔ یہاں تک کہ مشہور ہو جائے گا کہ فلاں قبیلے میں کوئی امانت دار ہے ۔ اور یہاں تک کہ کہا جائے گا یہ شخص کیسا عقلمند ، کس قدر زیرک ، دانا اور فراست والا ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دیکھو اس سے پہلے تو میں ہر ایک سے ادھار سدھار کر لیا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو وہ خود میرا حق مجھے دے جائے گا اور اگر یہودی یا نصرانی ہے تو حکومت اسلام مجھے اس سے دلوا دے گی ۔ لیکن اب تو صرف فلاں فلاں کو ہی ادھار دیتا ہوں باقی بند کر دیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6497) مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ { چار باتیں تجھ میں ہوں پھر اگر ساری دنیا بھی فوت ہو جائے تو تجھے نقصان نہیں ۔ امانت کی حفاظت ، بات چیت کی صداقت ، حسن اخلاق اور وجہ حلال کی روزی } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:177/2:ضعیف) عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی کتاب الزھد میں ہے کہ جبلہ بن سحیم زیاد کے ساتھ تھے اتفاق سے ان کے منہ سے باتوں ہی باتوں میں نکل گیا ” قسم ہے امانت کی “ ۔ اس پر زیاد رونے لگے اور بہت روئے ۔ میں ڈرگیا کہ مجھ سے کوئی سخت گناہ سرزد ہوا ۔ میں نے کہا کیا وہ اسے مکروہ جانتے تھے فرمایا ” ہاں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اسے بہت مکروہ جانتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے “ ۔ ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:0000،قال الشیخ الألبانی:) امانتداری جو آدم علیہ السلام نے کی اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت یعنی وہ جو ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافر تھے اور وہ جو اندر باہر یکساں کافر تھے انہیں تو سخت سزا ملے اور مومن مرد و عورت پر اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جو اللہ کو اس کے فرشتوں کو اس کے رسولوں کو مانتے تھے اور اللہ کے سچے فرمانبردار رہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الاحزاب کی تفسیر ختم ہوئی ۔