وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اور جب تو اس شخص سے جس پر اللہ نے انعام کیا اور جس پر تو نے انعام کیا کہہ رہا تھا کہ اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کردیا، تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ ہو، جب وہ ان سے حاجت پوری کر چکیں اور اللہ کا حکم ہمیشہ سے (پورا) کیا ہوا ہے۔
عظمت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ’ اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہر طرح سمجھایا ۔ ان پر اللہ کا انعام تھا کہ اسلام اور متابعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توفیق دی ‘ ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ان پر احسان تھا کہ انہیں غلامی سے آزاد کر دیا ۔ یہ بڑی شان والے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی پیارے تھے یہاں تک کہ انہیں سب مسلمان «حِبٰ الرَّسُوْل» کہتے تھے ۔ ان کے صاحبزادے اسامہ کو بھی «الْحِبٰ ابْنُ الْحِبِّ» کہتے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ { جس لشکر میں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھیجتے تھے اس لشکر کا سردار انہی کو بناتے تھے ۔ اگر یہ زندہ رہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بن جاتے } ۔ (مسند احمد:227/6:حسن) مسند بزار میں ہے { اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں مسجد میں تھا میرے پاس سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما آئے اور مجھ سے کہا جاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے اجازت طلب کرو ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { جانتے ہو وہ کیوں آئے ہیں ؟ } میں نے کہا نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے : { فرمایا لیکن میں جانتا ہوں جاؤ بلا لاؤ } ، یہ آئے اور کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { میری بیٹی فاطمہ [ رضی اللہ عنہا ] } ۔ انہوں نے کہا ہم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نہیں پوچھتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { پھر اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جن پر اللہ نے انعام کیا اور میں نے بھی } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3819 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا اسدیہ سے کرا دیا تھا ۔ دس دینار اور سات درہم مہر دیا تھا ، ایک ڈوپٹہ ایک چادر ایک کرتا پچاس مد اناج اور دس مد کھجوریں دی تھیں ۔ ایک سال یا کچھ اوپر تک تو یہ گھر بسا لیکن پھر ناچاقی شروع ہو گئی ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر شکایت شروع کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھانے لگے کہ { گھر نہ توڑو اللہ سے ڈرو } ۔ ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے اس جگہ بہت سے غیر صحیح آثار نقل کئے ہیں جن کا نقل کرنا ہم نامناسب جان کر ترک کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے ایک بھی ثابت اور صحیح نہیں ۔ مسند احمد میں بھی ایک روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہے لیکن اس میں بھی بڑی غرابت ہے اس لیے ہم نے اسے بھی وارد نہیں کیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { یہ آیت زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4787) ابن ابی حاتم میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ زینب رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں گی ۔ یہی بات تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہر نہ فرمایا اور زید رضی اللہ عنہ کو سمجھایا کہ وہ اپنی بیوی کو الگ نہ کریں ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ فرماتی ہیں ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر اللہ کی وحی کتاب اللہ میں سے ایک آیت بھی چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپالیتے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:177) «وَطَرْ» کے معنی حاجت کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب سیدہ زید رضی اللہ عنہ ان سے سیر ہوگئے اور باوجود سمجھانے بجھانے کے بھی میل ملاپ قائم نہ رہ سکا بلکہ طلاق ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے دیا ۔ اس لیے ولی کے ایجاب و قبول سے مہر اور گواہوں کی ضرورت نہ رہی ۔ مسند احمد میں ہے { سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ { تم جاؤ اور انہیں مجھ سے نکاح کرنے کا پیغام پہنچاؤ } ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ گئے اس وقت آپ رضی اللہ عنہا آٹا گوندھ رہی تھیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ پر ان کی عظمت اس قدر چھائی کہ سامنے پڑ کر بات نہ کر سکے منہ پھیر کر بیٹھ گئے اور ذکر کیا ۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” ٹھہرو ! میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کر لوں “ ۔ یہ تو کھڑی ہو کر نماز پڑھنے لگیں ادھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ میں نے ان کا نکاح تجھ سے کر دیا ‘ ۔ چنانچہ اسی وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے اطلاع چلے آئے ، ، پھر ولیمے کی دعوت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سب کو گوشت روٹی کھلائی ۔ لوگ کھا پی کر چلے گئے مگر چند آدمی وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر اپنی بیویوں کے حجرے کے پاس گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں السلام علیک کرتے تھے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتی تھیں کہ فرمائیے بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں ؟ مجھے یہ یاد نہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دیئے گئے کہ لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر کی طرف تشریف لے گئے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی جانے کا ارادہ کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حجاب ہو گیا اور پردے کی آیتیں اتریں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو نصیحت کی گئی اور فرما دیا گیا کہ ’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بے اجازت نہ جاؤ ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1428) صحیح بخاری شریف میں ہے { سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اور ازواج مطہرات «رَضِیَ اللہُ عَنْہُنَّ وَأَرْضَاہُنَّ» سے فخراً کہا کرتی تھیں کہ ” تم سب کے نکاح تمہارے ولی وارثوں نے کئے اور میرا نکاح خود اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان پر کرا دیا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7420) سورۃ النور کی تفسیر میں ہم یہ روایت بیان کر چکے ہیں کہ ” سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا میرا نکاح آسمان سے اترا اور ان کے مقابلے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” میری برأت کی آیتیں آسمان سے اتریں “ جس کا سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اقرار کیا ۔ ابن جریر میں ہے { ام المؤمنین سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا ” مجھ میں اللہ تعالیٰ نے تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور بیویوں میں نہیں ایک تو یہ کہ میرا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دادا ایک ہے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دیا ۔ تیسرے یہ کہ ہمارے درمیان سفیر جبرائیل علیہ السلام تھے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:28526:ضعیف و مرسل) پھر فرماتا ہے ’ ہم نے ان سے نکاح کرنا تیرے لیے جائز کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے لے پالک لڑکوں کو بیویوں کے بارے میں جب انہیں طلاق دے دی جائے کوئی حرج نہ رہے ‘ ۔ یعنی وہ اگر چاہیں ان سے نکاح کر سکیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے زید کو اپنا متنبی بنا رکھا تھا ۔ عام طور پر انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا تھا ۔ قرآن نے اس نسبت سے بھی ممانعت کر دی اور حکم دیا کہ ’ انہیں اپنے حقیقی باپ کی طرف نسبت کرکے پکارا کرو ‘ ۔ پھر سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی تو اللہ پاک نے انہیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دے کر یہ بات بھی ہٹادی ۔ جس آیت میں حرام عورتوں کا ذکر کیا ہے وہاں بھی یہی فرمایا کہ ’ تمہارے اپنے صلبی لڑکوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں ‘ ۔ تاکہ لے پالک لڑکوں کی لڑکیاں اس حکم سے خارج رہیں ۔ کیونکہ ایسے لڑکے عرب میں بہت تھے ۔ یہ امر اللہ کے نزدیک مقرر ہو چکا تھا ۔ اس کا ہونا حتمی ، یقینی اور ضروری تھا ۔ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو یہ شرف ملنا پہلے ہی سے لکھا جا چکا تھا کہ وہ ازواج مطہرات امہات المؤمنین میں داخل ہوں رضی اللہ عنہا ۔