لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو۔
ٹھوس دلائل اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم قرار دیتے ہیں یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس امر پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال افعال احوال اقتداء پیروی اور تابعداری کے لائق ہیں ۔ جنگ احزاب میں جو صبر وتحمل اور عدیم المثال شجاعت کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کی ، مثلاً راہ الہ کی تیاری شوق جہاد اور سختی کے وقت بھی رب سے آسانی کی امید اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائی یقیناً یہ تمام چیزیں اس قابل ہیں کہ مسلمان انہیں اپنی زندگی کا جزوِ اعظم بنا لیں اور اپنے پیارے پیغمبر اللہ کے حبیب احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لیے بہترین نمونہ بنا لیں اور ان اوصاف سے اپنے تئیں بھی موصوف کریں ۔ اسی لیے قرآن کریم ان لوگوں کو جو اس وقت سٹ پٹا رہے تھے اور گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتے تھے فرماتا ہے کہ ’ تم نے میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کیوں نہ کی ؟ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو تم میں موجود تھے ان کا نمونہ تمہارے سامنے تھا تمہیں صبرو استقلال کی نہ صرف تلقین تھی بلکہ ثابت قدمی استقلال اور اطمینان کا پہاڑ تمہاری نگاہوں کے سامنے تھا ۔ تم جبکہ اللہ پر قیامت پر ایمان رکھتے ہو پھر کوئی وجہ نہ تھی کہ تم اپنے رسول کو اپنے لیے نمونہ اور نظیر نہ قائم کرتے ؟‘ پھر اللہ کی فوج کے سچے مومنوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھیوں کے ایمان کی پختگی بیان ہو رہی ہے کہ ’ انہوں نے جب ٹڈی دل لشکر کفار کو دیکھا تو پہلی نگاہ میں ہی بول اٹھے کہ انہی پر فتح پانے کی ہمیں خوشخبری دی گئی ہے ۔ ان ہی کی شکست کا ہم سے وعدہ ہوا ہے ‘ اور وعدہ بھی کس کا اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ اور یہ ناممکن محض ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ غلط ہو یقیناً ہمارا سر اور اس جنگ کی فتح کا سہرا ہو گا ۔ ان کے اس کامل یقین اور سچے ایمان کو رب نے بھی دیکھ لیا اور دنیا آخرت میں انجام کی بہتری انہیں عطا فرمائی ۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ کے جس وعدہ کی طرف اس میں اشارہ ہے وہ آیت یہ ہو جو سورۃ البقرہ میں گزر چکی ہے ۔ آیت «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُم مَّثَلُ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِکُم مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّیٰ یَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ مَتَیٰ نَصْرُ اللہِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیبٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:214) ، یعنی ’ کیا تم نے یہ سمجھ لیا ؟ کہ بغیر اس کے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت میں چلے جاؤ گے ؟ تم سے اگلے لوگوں کی آزمائش بھی ہوئی انہیں بھی دکھ درد لڑائی بھڑائی میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ انہیں ہلایا گیا کہ ایماندار اور خود رسول کی زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی مدد کو دیر کیوں لگ گئی ؟ یاد رکھو رب کی مدد بہت ہی قریب ہے ‘ ۔ یعنی یہ صرف امتحان ہے ادھر تم نے ثابت قدمی دکھائی ادھر رب کی مدد آئی ۔ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچا ہے ۔ فرماتا ہے کہ ’ ان اصحاب پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان اپنے مخالفین کی اس قدر زبردست جمعیت دیکھ کر اور بڑھ گیا ۔ یہ اپنے ایمان میں اپنی تسلیم میں اور بڑھ گئے ۔ یقین کامل ہو گیا فرمانبرداری اور بڑھ گئی ‘ ۔ اس آیت میں دلیل ہے ایمان کی زیادتی ہونے پر ۔ بہ نسبت اوروں کے ان کے ایمان کے قوی ہونے پر جمہور ائمہ کرام کا بھی یہی فرمان ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے ۔ ہم نے بھی اس کی تقریر شرح بخاری کے شروع میں کر دی ہے «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ» ۔ پس فرماتا ہے کہ ’ اس کی تنگی ترشی نے اس سختی اور تنگ حالی نے اس حال اور اس نقشہ نے انکا جو ایمان اللہ پر تھا اسے اور بڑھا دیا اور جو تسلیم کی خو ان میں تھی کہ اللہ رسول کی باتیں مانا کرتے تھے اور ان پر عامل تھے اس اطاعت میں اور بڑھ گئے ‘ ۔