سورة السجدة - آیت 26

أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ ۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کیا اس بات نے ان کی رہنمائی نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قومیں ہلاک کردیں، جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں۔ بلاشبہ اس میں یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں، تو کیا یہ نہیں سنتے؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دریائے نیل کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ کا خط کیا یہ اس کے ملاحظہ کے بعد بھی راہ راست پر نہیں چلتے کہ ان سے پہلے کے گمراہوں کو ہم نے تہہ و بالا کر دیا ہے ۔ آج ان کے نشانات مٹ گئے ۔ انہوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اللہ کی باتوں سے بے پرواہی کی ، اب یہ جھٹلانے والے بھی ان ہی کے مکانوں میں رہتے سہتے ہیں ۔ ان کی ویرانی ان کے اگلے مالکوں کی ہلاکت ان کے سامنے ہے ۔ لیکن تاہم یہ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ اسی بات کو قرآن حکیم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ ’ یہ غیر آباد کھنڈر یہ اجڑے ہوئے محلات تو تمہاری آنکھوں کو اور تمہارے کانوں کو کھولنے کے لیے اپنے اندر بہت سی نشانیاں رکھتے ہیں ‘ ۔ ’ دیکھ لو کہ اللہ کی باتیں نہ ماننے کا رسولوں کی تحقیر کرنے کا کتنا بد انجام ہوا ؟ کیا تمہارے کان ان کی خبروں سے نا آشنا ہیں ؟ ‘ پھر جناب باری تعالیٰ اپنے لطف و کرم کو احسان وانعام کو بیان فرما رہا ہے کہ ’ آسمان سے پانی اتارتا ہے پہاڑوں سے اونچی جگہوں سے سمٹ کرندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعہ ادھر ادھر پھیل جاتا ہے ۔ بنجر غیر آباد زمین میں اس سے ہریالی ہی ہریالی ہو جاتی ہے ۔ خشکی تری سے موت زیست سے بدل جاتی ہے ‘ ۔ گو مفسرین کا قول یہ بھی ہے کہ جزر مصر کی زمین ہے لیکن یہ ٹھیک ہے ۔ ہاں مصر میں بھی ایسی زمین ہو تو ہو آیت میں مراد تمام وہ حصے ہیں جو سوکھ گئے ہوں جو پانی کے محتاج ہوں سخت ہو گئے ہوں زمین یبوست [ خشکی ] کے مارے پھٹنے لگی ہو ۔ بے شک مصر کی زمین بھی ایسی ہے دریائے نیل سے وہ سیراب کی جاتی ہے ۔ حبش کی بارشوں کا پانی اپنے ساتھ سرخ رنگ کی مٹی کو بھی گھسیٹتا جاتا ہے اور مصر کی زمین جو شور اور ریتلی ہے وہ اس پانی اور اس مٹی سے کھیتی کے قابل بن جاتی ہے اور ہرسال پر فصل کا غلہ تازہ پانی سے انہیں میسر آتا ہے جو ادھر ادھر کا ہوتا ہے ۔ اس حکیم و کریم منان و رحیم کی یہ سب مہربانیاں ہیں ۔ اسی کی ذات قابل تعریف ہے ۔ روایت ہے کہ جب مصر فتح ہوا تو مصر والے بوائی کے مہینے میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری قدیمی عادت ہے کہ اس مہینے میں کسی کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اگر نہ چڑھائیں تو دریا میں پانی نہیں آتا ۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو ایک باکرہ لڑکی کو جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہو اس کے والدین کو دے دلا کر رضا مند کرلیتے ہیں اور اسے بہت عمدہ کپڑے اور بہت قیمتی زیور پہنا کر بنا سنوار کر اس نیل میں ڈال دیتے ہیں تو اس کا بہاؤ چڑھتا ہے ورنہ پانی چڑھتا ہی نہیں ۔ سپہ سلار اسلام عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فاتح مصر نے جواب دیا کہ ” یہ ایک جاہلانہ اور احمقانہ رسم ہے ۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اسلام تو ایسی عادتوں کو مٹانے کے لیے آیا ہے تم اب ایسا نہیں کر سکتے “ ۔ وہ باز رہے لیکن دریائے نیل کا پانی نہ چڑھا مہنیہ پورا نکل گیا لیکن دریا خشک رہا ۔ لوگ تنگ آ کر ارادہ کرنے لگے کہ مصر کو چھوڑ دیں ۔ یہاں کی بود و باش ترک کر دیں ۔ اب فاتح مصر کو خیال گزرتا ہے اور دربار خلافت کو اس سے مطلع فرماتے ہیں ۔ اسی وقت خلیفۃ المسلمین امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے جواب ملتا ہے کہ ” آپ رضی اللہ عنہ نے جو کیا اچھا کیا اب میں اپنے اس خط میں ایک پرچہ دریائے نیل کے نام بھیج رہا ہوں تم اسے لے کر نیل کے دریا میں ڈال دو “ ۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اس پرچے کو نکال کر پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ ” یہ خط اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کی طرف “ ۔ ” بعد حمد وصلوۃ کے مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنی طرف سے اور اپنی مرضی سے چل رہا ہے تب تو خیر نہ چل اگر اللہ تعالیٰ واحد و قہار تجھے جاری رکھتا ہے تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہیں کہ وہ تجھے رواں کر دے “ ۔ یہ پرچہ لے کر امیر عسکر نے دریائے نیل میں ڈال دیا ، ابھی ایک رات بھی گزرنے نہیں پائی تھی جو دریائے نیل میں سولہ ہاتھ گہرا پانی چلنے لگا اور اسی وقت مصر کی خشک سالی تر سالی سے گرانی ارزانی سے بدل گئی ۔ خط کے ساتھ ہی خطہٰ کا خطہٰ سرسبز ہو گیا اور دریا پوری روانی سے بہتا رہا ۔ اس کے بعد سے ہر سال جو جان چڑھائی جاتی تھی وہ بچ گئی اور مصر سے اس ناپاک رسم کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا ۔ ۱؎ (کتاب السنہ للحافظ ابوالقاسم اللالکائی:ضعیف) اسی آیت کے مضمون کی آیت یہ بھی ہے «فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ» ۱؎ (80-عبس:24) ، یعنی ’ انسان اپنی غذا کو دیکھے کہ ہم نے بارش اتاری اور زمین پھاڑ کر اناج اور پھل پیدا کئے ‘ ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ ’ یہ لوگ اسے نہیں دیکھتے ؟ ‘ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” «جُرُزِ» وہ زمین ہے جس پر بارش ناکافی برستی ہے پھر نالوں اور نہروں کے پانی سے وہ سیراب ہوتی ہے “ ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ زمین یمن میں ہے “ ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ایسی بستیاں یمن اور شام میں ہیں “ ۔ ابن زید وغیرہ کا قول ہے ” یہ وہ زمین ہے جس میں پیداوار نہ ہو اور غبار آلود ہو “ ۔ اسی کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے «وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ ښ اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ» ۱؎ (36-یس:33) ، ’ ان کے لیے مردہ زمین بھی اک نشانی ہے جسے ہم زندہ کر دیتے ہیں ‘ ۔