سورة السجدة - آیت 10

وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں گم ہوگئے، کیا واقعی ہم ضرور نئی پیدائش میں ہوں گے؟ بلکہ وہ اپنے رب کی ملاقات سے منکر ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

انسان اور فرشتوں کا ساتھ کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں ، اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہو جائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جا سکتے ہیں ؟ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں ۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے ۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے ۔ جہاں کہا یوں ہو جا وہیں ہو گیا ۔ اسی لیے فرما دیا کہ ’ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے ‘ ۔ ‎ اس کے بعد فرمایا کہ ’ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کر دیں گے ‘ ۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے ۔ براء کی وہ حدیث جس کا بیان سورۃ ابراہیم میں گزرچکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے ۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں ۔ ان کے لیے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو ، کہ جو چاہا اٹھا لیا ۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:332/5:مرسل ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقولہ بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ملک الموت میرے صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آسانی کیجئے } ۔ آپ نے جواب دیا کہ ” اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود با ایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں ۔ سنو ! یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یاتری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں ۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہے ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو “ } ۔ حضرت جعفر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ ” ملک الموت علیہ السلام کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیاکرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہِ » کی تلقین کرتا ہے “ ۔ ۱؎ (ابو شیخ فی العظمتہ:475:ضعیف) مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں “ ۔ کعب احبار رحمہ اللہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ” ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہو چکا ہو “ ۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے ۔