وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ وہ تمھیں خوف اور طمع کے لیے بجلی دکھاتا ہے اور آسمان سے پانی اتارتا ہے، پھر زمین کو اس کے ساتھ اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کردیتا ہے۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔
قیام ارض و سما اللہ تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرنے والی ایک اور نشانی بیان کی جا رہی ہے کہ ’ آسمانوں پر اس کے حکم سے بجلی کوندتی ہے جسے دیکھ کر کبھی تمہیں دہشت لگنے لگتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کڑک کسی کو ہلاک کر دے ‘ کہیں بجلی گرے وغیرہ ’ اور کبھی تمہیں امید بندھتی ہے کہ اچھا ہوا اب بارش برسے گی پانی کی ریل پیل ہو گی ترسالی ہو جائے گی ‘ وغیرہ ۔ وہی ہے جو آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اس زمین کو جو خشک پڑی ہوئی تھی جس پر نام نشان کی کوئی ہریاول نہ تھی مثل مردے کے بے کار تھی اس بارش سے وہ زندہ کر دیتا ہے لہلانے لگتی ہے ہری بھری ہوجاتی ہے اور طرح طرح کی پیدوار اگادیتی ہے ۔ عقل مندوں کے لئے عظمت اللہ کی یہ ایک جیتی جاگتی تصویر ہے ۔ وہ اس نشان کو دیکھ کر یقین کر لیتے ہیں کہ اس زمین کو زندہ کرنے والا ہماری موت کے بعد ہمیں بھی از سر نو زندہ کر دینے پر قادر ہے ۔ اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ زمین و آسمان اسی کے حکم سے قائم ہیں وہ آسمان کو زمین پر گرنے نہیں دیتا اور آسمان و زمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں زوال سے بچائے ہوئے ہے ۔ سید ناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کوئی تاکیدی قسم کھانا چاہتے تو فرماتے ” اس اللہ کی قسم جس کے حکم سے زمین و آسمان ٹھہرے ہوئے ہیں “ ۔ پھر قیامت کے دن وہ زمین و آسمان کو بدل دے گا مردے اپنی قبروں سے زندہ کر کے نکالے جائنگے ۔ خود اللہ انہیں آواز دے گا اور یہ صرف ایک آواز پر زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہونگے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیبُونَ بِحَمْدِہِ وَتَظُنٰونَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِیلًا» ۱؎ (17-الإسراء:52) ’ جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی حمد کرتے ہوئے اسے جواب دو گے اور یقین کرلو گے کہ تم بہت ہی کم رہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «فَاِنَّمَا ھِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۔ فَإِذَا ہُم بِالسَّاہِرَۃِ» ۱؎ (79-النازعات:-14-13) ’ صرف ایک ہی آواز سے ساری مخلوق میدان حشر میں جمع ہو جائے گی اور آیت میں ہے ‘ «اِنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ» ۱؎ (36-یس:53) یعنی ’ وہ تو صرف ایک آواز ہو گی جسے سنتے ہی سب کے سب ہمارے سامنے حاضر ہو جائیں گے ‘ ۔