أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنفُسِهِم ۗ مَّا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ
اور کیا انھوں نے اپنے دلوں میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اسے پیدا نہیں کیا مگر حق اور ایک مقرر وقت کے ساتھ اور بے شک بہت سے لوگ یقیناً اپنے رب سے ملنے ہی کے منکر ہیں۔
کائنات کا ہر ذرہ دعوت فکر دیتا ہے چونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ حق جل وعلا کی قدرت کا نشان ہے اور اس کی توحید اور ربوبیت پر دلالت کرنے والا ہے اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ ’ موجودات میں غور و فکر کیا کرو اور قدرت اللہ کی نشانیوں سے اس مالک کو پہچانو اور اس کی قدر و تعظیم کرو ‘ ۔ کبھی عالم علوی کو دیکھو، کبھی عالم سفلی پر نظر ڈال ، کبھی اور مخلوقات کی پیدائش کو سوچو اور سمجھو کہ یہ چیزیں عبث اور بے کار پیدا نہیں کی گئیں ۔ بلکہ رب نے انہیں کارآمد اور نشان قدرت بنایا ہے ۔ ہر ایک کا ایک وقت مقرر ہے یعنی قیامت کا دن ۔ جسے اکثر لوگ مانتے ہی نہیں ۔ اس کے بعد نبیوں کی صداقت کو اس طرح ظاہر فرماتا ہے کہ ’ دیکھ لو ان کے مخالفین کا کس قدر عبرتناک انجام ہوا ؟ اور ان کے ماننے والوں کو کس طرح دونوں جہاں کی عزت ملی ؟ تم چل پھر کر اگلے واقعات معلوم کرو کہ گزشتہ امتیں جو تم سے زیادہ زور آور تھیں تم سے زیادہ مال و زر والی تھیں تم سے کنبے قبیلے اور بیٹے پوتے والی تھیں تم تو ان کے دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے وہ تم سے زیادہ عمر والے تھے ۔ تم سے زیادہ آبادیاں انہوں نے کیں، تم سے زیادہ کھیتیاں اور باغات ان کے تھے اس کے باوجود جب ان کے پاس اس زمانے کے رسول آئے انہوں نے دلیلیں اور معجزے دکھائے اور پھر بھی اس زمانے کے ان بدنصیبوں نے ان کی نہ مانی اور اپنے خیالات میں مستغرق رہے اور سیاہ کاریوں میں مشغول رہے تو بالآخر عذاب اللہ ان پر برس پڑے ‘ ۔ اس وقت کوئی نہ تھا جو انہیں بچا سکے یا کسی عذاب کو ان پر سے ہٹا سکے ۔ اللہ کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ظلم کرے ۔ یہ عذاب تو ان کے اپنے کرتوتوں کا وبال تھا ۔ یہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے تھے رب کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ «وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ» (6-الأنعام:110)’ ان کی بےایمانی کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں کو ان کی نگاہوں کو پھیر دیا اور انہیں ان کی سرکشی میں ہی حیران چھوڑ دیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللہُ قُلُوبَہُمْ» (61-الصف:5) ’ ان کی کجی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دئیے ‘ اور اس آیت میں ہے کہ «فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیدُ اللہُ أَنْ یُصِیبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِہِمْ» ۱؎ (5-المائدۃ:49) ’ اگر اب بھی منہ موڑیں تو سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض گناہوں پر ان کی پکڑ کرنے کا ارادہ کرچکا ہے ‘ ۔ اس بناء پر «اَلسٰوایٰ» منصوب ہو گا «اَسَاءُ» کا مفعول ہو کر ۔ اور یہ بھی قول ہے کہ «سٰوایٰ» یہاں پر اس طرح واقع ہے کہ برائی ان کا انجام ہوئی ۔ اس لیے کہ وہ آیات اللہ کے جھٹلانے والے اور ان کا مذاق اڑانے والے تھے ۔ تو اس معنی کی رو سے یہ لفظ منصوب ہو گا «کَان» کی خبر ہو کر ۔ امام ابن جریررحمہ اللہ نے یہی توجیہہ بیان کی ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادۃ رحمہ اللہ سے نقل بھی کی ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور ظاہر بھی یہی ہے کیونکہ اس کے بعد آیت «ووَکَانُوْا بِہَا یَسْتَہْزِءُوْنَ» ۱؎ (30- الروم:10) ہے ۔