وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
اور وہ تجھ سے جلدی عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ایک مقرر وقت نہ ہوتا تو ان پر عذاب ضرور آ جاتا اور یقیناً وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اور وہ شعور نہ رکھتے ہوں گے۔
موت کے بعد کفار کو عذاب اور مومنوں کو جنت مشرکوں کا اپنی جہالت سے عذاب الٰہی طلب کرنا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ اللہ کے نبی سے بھی یہی کہتے تھے اور خود اللہ تعالیٰ سے بھی یہی دعائیں کرتے تھے کہ ’ جناب باری اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں اور کوئی درد ناک عذاب کر ۔ ‘ ۱؎ (8-الأنفال:32) یہاں انہیں جواب ملتا ہے کہ رب العالمین یہ بات مقرر کر چکا ہے کہ ان کفار کو قیامت کے دن عذاب ہوں گے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ان کے مانگتے ہی عذاب کے مہیب بادل ان پر برس پڑتے ۔ اب بھی یہ یقین مانیں کہ یہ عذاب آئیں گے اور ضرور آئیں گے بلکہ ان کی بےخبری میں اچانک اور یک بہ یک آ پڑیں گے ۔ یہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں اور جہنم بھی انہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے یعنی یقیناً انہیں عذاب ہو گا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ جہنم یہی بحر اخضر ہے ، ستارے اسی میں جھڑیں گے اور سورج ، چاند اسی میں بے نور کر کے ڈال دئیے جائیں گے اور یہ بھڑک اٹھے گا اور جہنم بن جائے گا ۔ مسند احمد میں مرفوع حدیث ہے کہ سمندر ہی جہنم ہے راوی حدیث یعلیٰ سے لوگوں نے کہا کہ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «نَارًا اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا» یعنی ’ وہ آگ جسے قناتیں گھیرے ہوئے ہیں ‘ تو فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں یعلیٰ کی جان ہے کہ میں اس میں ہرگز داخل نہ ہوں گا جب تک کہ اللہ کے سامنے پیش نہ کیا جاؤں اور مجھے اس کا ایک قطرہ بھی نہ پہنچے گا یہاں تک کہ میں اللہ کے سامنے پیش کیا جاؤں ۔ یہ تفسیر بھی بہت غریب ہے اور یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس دن انہیں نیچے سے آگ ڈھانک لے گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے «لَہُم مِّن جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَمِن فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:41) ’ ان کے لیے جہنم ہی اوڑھنا بچھونا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَــلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَــلٌ ذٰلِکَ یُخَــوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ» ۱؎ (39-الزمر:16) یعنی ’ ان کے اوپر نیچے سے آگ ہی کا فرش و سائبان ہو گا ۔ ‘ اور مقام پر ارشاد ہے «لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَکُفٰوْنَ عَنْ وٰجُوْہِہِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُہُوْرِہِمْ وَلَا ہُمْ یُنْــصَرُوْنَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:39) یعنی ’ کاش کہ کافر اس وقت کو جان لیں جب کہ نہ یہ اپنے آگے سے آگ کو ہٹا سکیں گے نہ پیچھے سے ۔ ‘ ان آیتوں سے معلوم ہو گیا کہ ہر طرف سے ان کفار کو آگ کھا رہی ہو گی ، آگے پیچھے سے ، اوپر نیچے سے ، دائیں بائیں سے ۔ تو اس پر اللہ عالم کی ڈانٹ ڈپٹ اور مصیبت ہو گی ۔ ادھر ہر وقت کہا جائے گا : لو اب عذاب کے مزے چکھو ۔ پس ایک تو وہ ظاہری ، جسمانی عذاب ، دوسرا یہ باطنی ، روحانی عذاب ۔ اسی کا ذکر آیت «یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ ذُوْقُوْا مَسَّ سَقَرَ» ۱؎ (40-غافر:71) اور آیت «یَوْمَ یُدَعٰونَ إِلَیٰ نَارِ جَہَنَّمَ دَعًّا ہٰذِہِ النَّارُ الَّتِی کُنتُم بِہَا تُکَذِّبُونَ أَفَسِحْرٌ ہٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُونَ اصْلَوْہَا فَاصْبِرُوا أَوْ لَا تَصْبِرُوا سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» ۱؎ (52-الطور:13-16) میں ہے یعنی ’ جبکہ جہنم میں اوندھے منہ گھسیٹے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ لو اب آگ کے عذاب کا مزہ چکھو ۔ جس دن انہیں دھکے دے دے کر جہنم میں ڈالا جائے گا اور کہا جائے گا : یہ وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلاتے رہے ۔ اب بتاؤ ! یہ جادو ہے ؟ یا تم اندھے ہو ؟ جاؤ اب جہنم میں چلے جاؤ ۔ اب تمہارا صبر کرنا یا نہ کرنا یکساں ہے ۔ تمہیں اپنے اعمال کا بدلہ ضرور بھگتنا ہے ۔ ‘