سورة العنكبوت - آیت 46

وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہو، مگر وہ لوگ جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا اور کہو ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور تمھاری طرف نازل کیا گیا اور ہمارا معبود اور تمھارا معبود ایک ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

غیر مسلموں کو دلائل سے قائل کرو قتادۃ رحمہ اللہ وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ یہ آیت تو جہاد کے حکم کے ساتھ منسوخ ہے اب تو یہی ہے کہ یا تو اسلام قبول کرو یا جزیہ ادا کرو یا لڑائی لڑیں ۔ لیکن اور بزرگ مفسرین کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے جو یہودی یا نصرانی دینی امور کو سجھنا چاہے اور اسے مہذب طریقے پر سلجھے ہوئے پیرائے سے سمجھا دینا چاہیئے ۔ کیا عجیب ہے کہ وہ راہ راست اختیار کرے ۔ جیسے اور آیت میں عام حکم موجود ہے آیت «ادْعُ إِلَیٰ سَبِیلِ رَ‌بِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ» ۱؎ (16-النحل:125) ’ اپنے رب کی راہ کی دعوت حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ لوگوں کو دو ۔ ‘ موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو جب فرعون کے طرف بھیجا جاتا ہے تو فرمان ہوتا ہے کہ آیت «فَقُولَا لَہُ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہُ یَتَذَکَّرُ‌ أَوْ یَخْشَیٰ» ۱؎ (20-طہ:44) یعنی ’ اس سے نرمی سے گفتگو کرنا ، کیا عجب کہ وہ نصیحت قبول کر لے اور اس کا دل پگھل جائے ‘ ۔ یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ ہے ۔ اور ابن زید رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے ۔ ہاں ان میں سے جو ظلم پر اڑ جائیں اور ضد اور تعصب برتیں حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیں پھر مناظرے مباحثے بےسود ہیں پھر تو جدال وقتال کا حکم ہے ۔ جیسے جناب باری عز اِسمہُ کا ارشاد ہے آیت «لَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا رُ‌سُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ» ۱؎ (57-الحدید:25) ’ ہم نے رسولوں کو واضح دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ہمراہ کتاب ومیزان نازل فرمائی تاکہ لوگوں میں عدل و انصاف کا قیام ہو سکے ۔ اور ہم نے لوہا بھی نازل فرمایا جس میں سخت لڑائی ہے ‘ ۔ پس اللہ کا حکم یہ ہے کہ بھلائی سے اور نرمی سے جو نہ مانے اس پر پھر سختی کی جائے ۔ جو لڑے اسی سے لڑاجائے ہاں یہ اور بات ہے کہ ماتحتی میں رہ کر جزیہ ادا کرے ۔ پھر فرماتا ہے جس کے کھرے کھوٹے ہونے کا تمہیں یقینی علم نہ ہو تو اس کی تکذیب کی طرف قدم نہ بڑھاؤ اور نہ بے تأمل تصدیق کر دیا کرو ممکن ہے کسی امر حق کو تم جھٹلادو اور ممکن ہے کسی باطل کی تم تصدیق کر بیٹھو ۔ پس شرط یہ ہے کہ تصدیق کرو یعنی کہہ دو کہ ہمارا اللہ کی ہر بات پر ایمان ہے اگر تمہاری پیش کردہ چیز اللہ کی نازل کردہ ہے تو ہم اسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تم نے تبدیل وتحریف کر دی ہے تو ہم اسے نہیں مانتے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { اہل کتاب توراۃ کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور ہمارے سامنے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نہ تم انہیں سچا کہو نہ جھوٹا بلکہ تم آیت «وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلٰہُنَا وَإِلٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ» سے آخر آیت تک پڑھ دیا کرو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4485) مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا اور کہنے لگا کیا یہ جنازے بولتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ ہی کو علم ہے ۔ اس نے کہا میں جانتا ہوں یہ یقیناً بولتے ہیں اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اہل کتاب جب تم سے کوئی بات بیان کریں تو تم نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب بلکہ کہہ دو ہمارا اللہ پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ہے ۔ یہ اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو تم کسی جھوٹ کو سچا کہہ دو یا کسی سچ کو جھوٹ بتا دو ۔ } ۱؎ (مسند احمد:136/4:حسن) یہاں یہ بھی خیال رہے کہ ان اہل کتاب کی اکثروبیشتر باتیں تو غلط اور جھوٹ ہی ہوتی ہیں عموماً بہتان و افتراء ہوتا ہے ۔ ان میں تحریف و تبدل ، تغیر وتاویل رواج پا چکی ہے ۔ اور صداقت ایسی رہ گئی ہے کہ گویا کچھ بھی نہیں ۔ پھر ایک بات اور بھی ہے کہ بالفرض سچ بھی ہو تو ہمیں کیا فائدہ ؟ ہمارے پاس تو اللہ کی تازہ اور کامل کتاب موجود ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اہل کتاب سے تم کچھ بھی نہ پوچھو ۔ وہ خود جبکہ گمراہ ہیں تو تمہاری تصحیح کیا کریں گے ؟ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی سچ بات کو تم جھوٹا کہہ دو ۔ یا ان کی کسی جھوٹی بات کو تم سچ کہہ دو ۔ یاد رکھو ہر اہل کتاب کے دل میں اپنے دین کا ایک تعصب ہے ۔ جیسے مال کی خواہش ہے ۔ [ ابن جریر ] صحیح بخاری شریف میں ہے { عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ تم اہل کتاب سے سوالات کیوں کرتے ہو ؟ تم پر تو اللہ کی طرف سے ابھی ابھی کتاب نازل ہوئی ہے جو بالکل خالص ہے جس میں باطل نہ ملا نہ مل جل سکے ۔ تم سے تو خود اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے دین کو بدل ڈالا ۔ اللہ کی کتاب میں تغیر کر دیا اور اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی کتابوں کو اللہ کی کتاب کہنے لگے اور دنیوی نفع حاصل کرنے لگے ۔ کیوں بھلا تمہارے پاس جو علم اللہ ہے کیا وہ تمہیں کافی نہیں ؟ کہ تم ان سے دریافت کرو ۔ دیکھو تو کس قدر ستم ہے کہ ان میں سے تو ایک بھی تم سے کبھی کچھ نہ پوچھے اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:4363) صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { ایک مرتبہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں قریش کی ایک جماعت کے سامنے فرمایا کہ دیکھو ان تمام اہل کتاب میں اور ان کی باتیں بیان کرنے والوں میں سب سے اچھے کعب بن احبار رضی اللہ عنہا ہے لیکن باوجود اس کے بھی ان کی باتوں میں بھی ہم کبھی کھبی جھوٹ پاتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:7361) اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ عمداً جھوٹ بولتے ہیں بلکہ جن کتابوں پر انہیں اعتماد ہے وہ خود گیلی سوکھی سب جمع کر لیتے ہیں ان میں خود سچ جھوت صحیح غلط بھرا پڑا ہے ۔ ان میں مضبوط ذی علم حافظوں کی جماعت تھی ہی نہیں ۔ یہ تو اسی امت مرحومہ پر اللہ کا فضل ہے کہ اس میں بہترین دل ودماغ والے اور اعلیٰ فہم وذکا والے اور عمدہ حفظ و اتقان والے لوگ اللہ نے پیدا کر دیئے ہیں لیکن پھر بھی آپ دیکھئیے کہ کس قدر موضوعات کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے ؟ اور کس طرح لوگوں نے باتیں گھڑ لی ہیں ۔ محدثین نے اس باطل کو حق سے بالکل جدا کر دیا ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔