قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِن قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَن ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
اس نے کہا مجھے تو یہ ایک علم کی بنا پر دیا گیا ہے، جو میرے پاس ہے۔ اور کیا اس نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ اس سے پہلے کئی نسلیں ہلاک کرچکا ہے جو اس سے زیادہ طاقتور اور زیادہ جماعت والی تھیں اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا۔
اپنی عقل و دانش پہ مغرور قارون قوم کے علماء کی نصیحتوں کو سن کر قارون نے جو جواب دئیے اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے دیجئیے میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو دے رکھا ہے اسی کا مستحق میں تھا ، میں ایک عقلمند زیرک ، دانا شخص ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی اللہ جانتا ہے اسی لیے اس نے مجھے یہ دولت دی ہے ۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے کہ «فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاہُ نِعْمَۃً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِیتُہُ عَلَیٰ عِلْمٍ بَلْ ہِیَ فِتْنَۃٌ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُونَ» (39-الزمر:49) جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت و راحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ آیت «قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَہْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ہُوَ اَشَدٰ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا وَلَا یُسْـَٔــلُ عَنْ ذُنُوْبِہِمُ الْمُجْرِمُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:78) یعنی ’ اللہ جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لیے اس نے مجھے یہ دیا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَئِنْ أَذَقْنَاہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ہٰذَا لِی» ۱؎ (41-فصلت:50) کہ ’ اگر ہم اسے کوئی رحمت چکھائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہہ اٹھتا ہے کہ «ہٰذَا لِی» اس کا حقدار تو میں تھا ہی ‘ ۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے ۔ بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کے عین کو بدل دینا یہ اللہ ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر نہیں ۔ فرمان الٰہی ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَہُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَہُ» ۱؎ (22-الحج:73) کہ ’ اگر تمام مخلوق بھی جمع ہو جائے تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتی ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے کہ میری طرح پیدائش کرے ۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنا دے ‘ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5953) یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں ۔ ان کے لیے تو یہ فرمایا پھر جو دعویٰ کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی کایا پلٹ کر سکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنا دیتا ہے مثلا لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے اور بالکل محال ہے اور جہالت وضلالت ہے ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رنگ وغیرہ بدل کر دھوکے بازی کرے ۔ لیکن حقیقتاً یہ ناممکن ہے ۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ محض دعوے کر کے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے ہیں ۔ ہاں یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں ۔ وہ اللہ کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان کے بس کا نہیں ہوتا ، نہ ان کے قبضے کا ہوتا ہے ، نہ کوئی کاری گری ، صنعت یا علم ہے ۔ وہ محض اللہ کے فرمان کا نتیجہ ہے جو اللہ اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے ۔ چنانچہ مروی ہے کہ حیوہ بن شریح مصری رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ تھا اور اس کی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں بہت آزردہ ہو رہے تھے ۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر کے فقیر کی جھولی میں ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا ۔ معجزے اور کرامات احادیث اور آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں ۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث طول ہو گا ۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند ہو گیا ۔ قارون کے اس جواب کی رد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ یہ غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں اسے دولت مند کر دیتا ہوں نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ حال لوگوں کو میں نے تباہ کر دیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی نشانی ہے ، محض غلط ہے ۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے ‘ ۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا ۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لیے اللہ کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ دیتا ۔