قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ
کہا اے میرے رب! بے شک میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کیا ہے، اس لیے ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔
یاد ماضی یہ گزر چکاکہ موسیٰ علیہ السلام فرعون سے خوف کھا کر اس کے شہر سے بھاگ نکلے تھے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے وہیں اسی کے پاس نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ علیہ السلام کو وہ سب یاد آ گیا اور عرض کرنے لگے ” اے اللہ ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے درپے ہو جائیں “ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچپن کے زمانے میں جب کہ آپ علیہ السلام کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑ لیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے آپ نے اپنی زبان کی بابت اللہ سے دعا مانگی تھی «قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَیَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّن لِّسَانِی یَفْقَہُوا قَوْلِی وَاجْعَل لِّی وَزِیرًا مِّنْ أَہْلِی ہَارُونَ أَخِی اشْدُدْ بِہِ أَزْرِی وَأَشْرِکْہُ فِی أَمْرِی» (20-طہ:25-32) کہ ’ میری زبان کی گرہ کھول دے تا کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو میرا وزیر بنا دے اس سے میرا بازو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ ادا ہو اور تیرے بندوں کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں ‘ ۔ یہاں بھی «. وَأَخِی ہَارُونُ ہُوَ أَفْصَحُ مِنِّی لِسَانًا فَأَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْءًا یُصَدِّقُنِی إِنِّی أَخَافُ أَن یُکَذِّبُونِ» ۱؎ (28-القصص:34) ہے ۔ آپ علیہ السلام کی دعا منقول ہے کہ ’ آپ علیہ السلام نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو میرے ساتھ ہی اپنا رسول بنا کر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر ہو جائے ۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے دل بڑھا ہوا رہے ‘ ۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں ۔ میں اکیلا رہا تو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے جھٹلا نہ دیں اور ہارون علیہ السلام ساتھ ہوا تو میری باتیں بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا ۔ جناب باری ارحم الراحمین نے جواب دیا کہ ’ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو سہارا دیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنا دیں گے ‘ ۔ جیسے اور آیت میں ہے «قَالَ قَدْ أُوتِیتَ سُؤْلَکَ یَا مُوسَیٰ» ۱؎ ( 20- طہ : 36 ) ’ موسیٰ [ علیہ السلام ] تیرا سوال پورا کر دیا گیا ‘ ۔ اور آیت «وَوَہَبْنَا لَہُ مِن رَّحْمَتِنَا أَخَاہُ ہَارُونَ نَبِیًّا» ۱؎ (19-مریم:53) میں ہے ’ ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا ‘ ۔ اسی لیے بعض اسلاف کا فرمان ہے کہ کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام پر کیا کہ اللہ سے دعا کر کے انہیں نبی بنوادیا ۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی ۔ واقعی آپ اللہ کے نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ ہم تم دونوں کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی ایذاء نہیں دے سکتے ۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام پہنچانے والے ہو ۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔ ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے اللہ لکھ چکا ہے «کَتَبَ اللہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی إِنَّ اللہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ» ۱؎ (58-المجادلۃ:21) ’ میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ قوت والا عزت والا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» ۱؎ (40-غافر:51،52) ، ’ ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے ہیں ‘ ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی حاصل ہو گا ۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔