وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ
اور جب ان پر بات واقع ہوجائے گی تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ یقیناً فلاں فلاں لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
دابتہ الارض جس جانور کا یہاں ذکر ہے یہ لوگوں کے بالکل بگڑ جانے اور دین حق کو چھوڑ بیٹھنے کے وقت آخر زمانے میں ظاہر ہو گا ۔ جب کہ لوگوں نے دین حق کو بدل دیا ہو گا ۔ بعض کہتے ہیں یہ مکہ شریف سے نکلے گا بعض کہتے ہیں اور کسی جگہ سے جس کی تفصیل ابھی آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ وہ بولے گا باتیں کرے گا اور کہے گا کہ لوگ اللہ کی آیتوں کا یقین نہیں کرتے تھے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ لیکن اس قول میں نظر ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ وہ انہیں زخمی کرے گا ایک روایت میں ہے کہ وہ یہ اور وہ دونوں کرے گا ۔ یہ قول بہت اچھا ہے اور دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ وہ احادیث و آثار جو دابتہ الارض کے بارے میں مروی ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں «واللہ المستعان» ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک مرتبہ بیٹھے قیامت کا ذکر کر رہے تھے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے آئے ۔ ہمیں ذکر میں مشغول دیکھ کر فرمانے لگے کہ قیامت قائم نہ ہو گی کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھواں ، دابتہ الارض ، یاجوج ماجوج ، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا ظہور ، اور دجال کانکلنا اور مغرب ، مشرق اور جزیرہ عرب میں تین خسف ہونا ، اور ایک آگ کا عدن سے نکلنا جو لوگوں کا حشر کرے گی ۔ انہی کے ساتھ رات گزارے گی اور انہی کے ساتھ دوپہر کا سونا سوئے گی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:7214) ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { دابتہ الارض تین مرتبہ نکلے گا دور دراز کے جنگل سے ظاہر ہو گا اور اس کا ذکر شہر یعنی مکہ تک نہ پہنچے گا پھر ایک لمبے زمانے کے بعد دوبارہ ظاہر ہو گا اور لوگوں کی زبانوں پر اس کا قصہ چڑھ جائے گا یہاں تک کہ مکہ میں بھی اس کی شہرت پہنچے گی ۔ پھر جب لوگ اللہ کی سب سے زیادہ حرمت و عظمت والی مسجد مسجد الحرام میں ہوں گے اسی وقت اچانک دفعتا دابتہ الارض انہیں وہی دکھائی دے گا کہ رکن مقام کے درمیان اپنے سر سے مٹی جھاڑ رہا ہو گا ۔ لوگ اس کو دیکھ کر ادھر ادھر ہونے لگیں گے یہ مومنوں کی جماعت کے پاس جائے گا اور ان کے منہ کو مثل روشن ستارے کے منور کر دے گا اس سے بھاگ کر نہ کوئی بچ سکتا ہے اور نہ چھپ سکتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک شخص اس کو دیکھ کر نماز کو کھڑا ہو جائے گا یہ اس کو کہے گا اب نماز کو کھڑا ہوا ہے ؟ پھر اس کے پیشانی پر نشان کر دے گا اور چلاجائے گا اس کے ان نشانات کے بعد کافر مومن کا صاف طور امتیاز ہو جائے گایہاں تک کہ مومن کافر سے کہے گا کہ اے کافر ! میرا حق ادا کر اور کافر مومن سے کہے گا اے مومن ! میرا حق ادا کر ۔ } یہ روایت سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { یہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہو گا جب کہ آپ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے ہونگے ۔ } لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں ہے ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ { سب سے پہلے جو نشانی ظاہر ہو گی وہ سورج کا مغرب سے نکلنا اور دابتہ الارض کا ضحی کے وقت آ جانا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ہو گا اس کے بعد ہی دوسرا ہو گا ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2941) صحیح مسلم شریف میں ہے { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھ چیزوں کی آمد سے پہلے نیک اعمال کر لو ۔ سورج کا مغرب سے نکلنا ، دھویں کا آنا ، دجال کا آنا ، اور دابتہ الارض کا آنا تم میں سے ہر ایک کا خاص امر اور عام امر ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:.2947-128) یہ حدیث اور سندوں سے دوسری کتابوں میں بھی ہے ۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ { دابتہ الارض کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کی لکڑی اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہو گی ۔ کافروں کی ناک پر لکڑی سے مہر لگائے گا اور مومنوں کے منہ انگوٹھی سے منور کر دے گا یہاں تک کہ ایک دستر خوان بیٹھے ہوئے مومن کافر سب ظاہر ہونگے ۔ } ۱؎ (مسند طیالسی:2564:ضعیف) ایک اور حدیث میں جو مسند احمد میں ہے ، مروی ہے کہ { کافروں کے ناک پر انگوٹھی سے مہر کرے گا اور مومنوں کے چہرے لکڑی سے چمکا دے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:295/2:ضعیف) ابن ماجہ میں سیدنا ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مکہ کے پاس ایک جنگل میں گئے ۔ میں نے دیکھا کہ ایک خشک زمین ہے جس کے اردگرد ریت ہے ۔ فرمانے لگے یہیں سے دابتہ الارض نکلے گا ۔ } سیدنا ابن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اس کے کئی سال بعد میں حج کے لیے نکلا تو مجھے لکڑی دکھائی دی جو میری اس لکڑی کے برابر تھی ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4066،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اس کے چار پیر ہونگے صفا کے کھڈ سے نکلے گا بہت تیزی سے خروج کرے گا جیسے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا ہو لیکن تاہم تین دن میں اس کے جسم کا تیسرا حصہ بھی نہ نکلا ہو گا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جب اس کی بابت پوچھا گیا تو فرمانے لگے جیاد میں ایک چٹان ہے اس کے نیچے سے نکلے گا میں اگر وہاں ہوتا تو تمہیں وہ چٹان دکھا دیتا ۔ یہ سیدھا مشرق کی طرف جائے گا اور اس شور سے جائے گا کہ ہر طرف اس کی آواز پہنچ جائے گی ۔ پھر شام کی طرف جائے گا وہاں بھی چیخ لگا کر ، پھر یمن کی طرف متوجہ ہوگا یہاں بھی آواز لگا کر شام کے وقت مکہ سے چل کر صبح کو عسفان پہنچ جائے گا ۔ لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہو گا ؟ فرمایا پھر مجھے معلوم نہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ مزدلفہ کی رات کو نکلے گا ۔ عزیر علیہ السلام کے ایک کلام کی حکایت ہے کہ سدوم کے نیچے سے یہ نکلے گا ۔ اس کے کلام کو سب سنیں گے حاملہ کے حمل وقت سے پہلے گرجائیں گے ، میٹھا پانی کڑوا ہو جائے گا دوست دشمن ہو جائیں گے حکمت جل جائی گی علم اٹھ جائے گا نیچے کی زمین باتیں کرے گی انسان کی وہ تمنائیں ہونگی کہ جو کبھی پوری نہ ہوں ، ان چیزوں کی کوشش ہو گی جو کبھی حاصل نہ ہو ۔ اس بارے میں کام کریں گے جسے کھائیں گے نہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے اس کے جسم پر سب رنگ ہونگے ۔ اس کے دوسینگوں کے درمیان سوار کے لیے ایک فرسخ کی راہ ہو گی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ یہ موٹے نیزے کی اور بھالے کی طرح کا ہو گا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بال ہونگے کھر ہونگے ڈاڑھی ہو گی دم نہ ہو گی ۔ تین دن میں بمشکل ایک تہائی باہر آئے گا حالانکہ تیز گھوڑے کی چال چلتا ہو گا ۔ سیدنا ابو زبیر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اس کا سر بیل کے سرکے مشابہ ہو گا آنکھیں خنزیر کی آنکھوں کے مشابہ ہونگی ، کان ہاتھی جیسے ہوں گے ، سینگ کی جگہ اونٹ کی طرح ہو گی ، شتر مرغ جیسی گردن ہو گی ، شیر جیسا سینہ ہو گا ، چیتے جیسا رنگ ہو گا بلی جیسی کمر ہو گی مینڈے جیسی دم ہو گی اونٹ جیسے پاؤں ہونگے ہر دو جوڑ کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ ہو گا ۔ موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ساتھ ہو گی ہر مومن کے چہرے پر اپنے عصائے موسوی سے نشان کرے گا جو پھیل جائے گا اور چہرہ منور ہو جائے گا اور ہر کافر کے چہرے پر خاتم سلیمانی سے نشانی لگا دے گا جو پھیل جائے گا اور اس کا سارا چہرہ سیاہ ہو جائے گا ۔ اب تو اس طرح مومن کافر ظاہر ہو جائیں گے کہ خرید و فروخت کے وقت کھانے پینے کے وقت لوگ ایک دوسروں کو اے مومن اور اے کافر کہہ کر بلائیں گے ۔ دابتہ الارض ایک ایک کا نام لے کر ان کو جنت کی خوشخبری یا جہنم کی بدخبری سنائے گا ۔ یہی معنی ومطلب اس آیت کا ہے ۔