أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ
(کیا وہ شریک بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ رونق والے باغات اگائے، تمھارے بس میں نہ تھا کہ ان کے درخت اگاتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بلکہ یہ ایسے لوگ ہیں جو راستے سے ہٹ رہے ہیں۔
اللہ کی ہمسر کوئی نہیں بیان کیا جا رہا ہے کہ کل کائنات کا رچانے والا ، سب کا پیدا کرنے والا ، سب کو روزیاں دینے والا ، سب کی حفاظتیں کرنے والا ، تمام جہان کی تدبیر کرنے والا ، صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ ان بلند آسمانوں کو چمکتے ستاروں کو اسی نے پیدا کیا ہے اس بھاری بوجھل زمین کو ان بلند چوٹیوں والے پہاڑوں کو ان پھیلے ہوئے میدانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے ۔ کھیتیاں ، باغات ، پھل ، پھول ، دریا ، سمندر ، حیوانات ، جنات ، انسان ، خشکی اور تری کے عام جاندار اسی ایک کے بنائے ہوئے ہیں ۔ آسمانوں سے پانی اتارنے والا وہی ہے ۔ اسے اپنی مخلوق کو روزی دینے کا ذریعہ اسی نے بنایا ، باغات کھیت سب وہی اگاتا ہے ۔ جو خوش منظر ہونے کے علاوہ بہت مفید ہیں ۔ خوش ذائقہ ہونے کے علاوہ زندگی کو قائم رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ تم میں سے یا تمہارے معبودان باطل میں سے کوئی بھی نہ کسی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے نہ کسی درخت اگانے کی ۔ بس وہی خالق و رازق ہے اللہ کی خالقیت اور اس کی روزی پہنچانے کی صفت کو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ جیسے دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ آیت «وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُولُنَّ اللہُ ۖ فَأَنَّیٰ یُؤْفَکُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:87) ’ یعنی اگر تو ان سے دریافت کرے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو یہی جواب دیں گے اللہ تعالیٰ نے ۔ } الغرض یہ جانتے اور مانتے ہیں کہ خالق کل صرف اللہ ہی ہے ۔ لیکن ان کی عقلیں ماری گئی ہیں کہ عبادت کے وقت اوروں کو بھی شریک کر لیتے ہیں ۔ باوجودیکہ جانتے ہیں کہ نہ وہ پیدا کرتے ہیں اور نہ روزی دینے والے ۔ اور اس بات کا فیصلہ تو ہر عقلمند کر سکتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ہے جو خالق مالک اور رازق ہے ۔ اسی لیے یہاں اس آیت میں بھی سوال کیا گیا کہ معبود برحق کے ساتھ کوئی اور بھی عبادت کے لائق ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ مخلوق کو پیدا کرنے میں ، مخلوق کی روزی مہیا کرنے میں کوئی اور بھی شریک ہے ؟ چونکہ وہ مشرک خالق رازق صرف اللہ ہی کو مانتے تھے ۔ اور عبادت اوروں کی کرتے تھے ۔ اس لیے ایک اور آیت میں فرمایا ۔ « أَفَمَن یَخْلُقُ کَمَن لَّا یَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ» ۱؎ (16-النحل:17) ’ خالق اور غیر خالق یکساں نہیں پھر تم خالق اور مخلوق کو کیسے ایک کر رہے ہو ؟ ‘ یہ یاد رہے کہ ان آیات میں «امن» جہاں جہاں ہے وہاں یہی معنی ہیں کہ ایک تو وہ جو ان تمام کاموں کو کر سکے اور ان پر قادر ہو دوسرا وہ جس نے ان میں سے نہ تو کسی کام کو کیا ہو اور نہ کر سکتا کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ گو دوسری شق کو لفظوں میں بیان نہیں کیا لیکن طرز کلام اسے صاف کر دیتا ہے ۔ اور آیت میں صاف صاف یہ بھی ہے کہ «قُلِ الْحَمْدُ لِلہِ وَسَلَامٌ عَلَیٰ عِبَادِہِ الَّذِینَ اصْطَفَیٰ ۗ اللہُ خَیْرٌ أَمَّا یُشْرِکُونَ» (27-النمل:59) کیا اللہ بہتر ہے یا جنہیں وہ شریک کرتے ہیں ؟ آیت کے خاتمے پر فرمایا بلکہ ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ۔ آیت «أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ ۗ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ» ۱؎ (39-الزمر:9) بھی اسی جیسی آیت ہے ’ یعنی ایک وہ شخص جو اپنے دل میں آخرت کا ڈر رکھ کر اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو کر راتوں کو نماز میں گزارتا ہو ۔ یعنی وہ اس جیسا نہیں ہوسکتا جس کے اعمال ایسے نہ ہوں ۔ ‘ ایک اور جگہ ہے عالم اور بےعلم برابر نہیں ۔ عقلمند ہی نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں ایک وہ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھلا ہوا ہو ، اور وہ اپنے رب کی طرف سے نور ہدایت لیے ہو اور وہ اس جیسا نہیں ۔ جس کے دل میں اسلام کی طرف سے کراہت ہو اور سخت دل ہو اللہ نے خود اپنی ذات کی نسبت فرمایا ۔ « أَفَمَنْ ہُوَ قَائِمٌ عَلَیٰ کُلِّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمٰوہُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَہُ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْأَرْضِ أَم بِظَاہِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مَکْرُہُمْ وَصُدٰوا عَنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَن یُضْلِلِ اللہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ » ۱؎ (13-الرعد:33) ’ یعنی وہ جو مخلوق کی تمام حرکات سکنات سے واقف ہو تمام غیب کی باتوں کو جانتا ہوں اس کی مانند ہے جو کچھ بھی نہ جانتا ہو ؟ بلکہ جس کی آنکھیں اور کان نہ ہو جیسے تمہارے یہ بت ہیں ۔ ‘ فرمان ہے آیت «وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکَاءَ قُلْ سَمٰوہُمْ » ۱؎ (13-الرعد:33) ’ یہ اللہ کے شریک ٹھہرا رہے ہیں ان سے کہہ ذرا ان کے نام تو مجھے بتاؤ ‘ پس ان سب آیتوں کا مطلب یہی ہے کہ اللہ نے اپنی صفیتں بیان فرمائی ہیں ۔ پھر خبر دی ہے کہ یہ صفات کسی میں نہیں ۔