هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ
کیا میں تمھیں بتاؤں شیاطین کس پر اترتے ہیں۔
شیاطین اور جادوگر مشرکین کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا یہ قرآن برحق نہیں ۔ اس نے اس کو خود گھڑلیا ہے یا اس کے پاس جنوں کا کوئی سردار آتا ہے جو اسے یہ سکھا جاتا ہے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اعتراض سے پاک کیا اور ثابت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس قرآن کو لائے ہیں وہ اللہ کا کلام ہے اسی کا اتارا ہوا ہے ۔ بزرگ امین طاقتور فرشتہ اسے لایا ہے ۔ یہ کسی شیطان یا جن کی طرف سے نہیں شیاطین تو تعلیم قرآن سے چڑتے ہیں اس کی تعلیمات ان کے یکسر خلاف ہیں ۔ انہیں کیا پڑی کہ ایسا پاکیزہ اور راہ راست پر لگانے والا قرآن وہ لائیں اور لوگوں کو نیک راہ بتائیں وہ تو اپنے جیسے انسانی شیطانوں کے پاس آتے ہیں جو پیٹ بھر کر جھوٹ بولنے والے ہوں ۔ بدکردار اور گناہگار ہوں ۔ ایسے کاہنوں اور بدکرداروں اور جھوٹے لوگوں کے پاس جنات اور شیاطین پہنچتے ہیں کیونکہ وہ بھی جھوٹے اور بداعمال ہیں ۔ اچٹتی ہوئی کوئی ایک آدھ بات سنی سنائی پہنچاتے ہیں اور وہ ایک جو آسمان سے چھپے چھپائے سن لی تو سو جھوٹ اس میں ملا کر کاہنوں کے کان میں ڈالدی ۔ انہوں نے اپنی طرف سے پھر بہت سی باتیں شامل کر کے لوگوں میں ڈینگیں مار دیں ۔ اب ایک آدھ بات تو سچی نکلی لیکن لوگوں نے ان کی اور سو جھوٹی باتیں بھی سچی مان لیں اور تباہ ہوئے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ { لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { وہ کوئی چیز نہیں ہیں } ۔ لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی تو ان کی کوئی بات کھری بھی نکل آتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہاں یہ وہی بات ہوتی ہے جو جنات آسمان سے اڑا لاتے ہیں اور ان کے کان میں کہہ کر جاتے ہیں پھر اس کے ساتھ جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر کہہ دیتے ہیں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5762) صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ { جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ آسمان پر کرتا ہے تو فرشتے با ادب اپنے پر جھکا دیتے ہیں ۔ ایسی آواز آتی ہے جیسے کسی چٹان پر زنجیر بجائی جاتی ہو جب وہ گھبراہٹ ان کے دلوں سے دور ہوتی ہے تو آپس میں دریافت کرتے ہیں کہ رب کا کیا حکم صادر ہوا ہے ؟ دوسرے جواب دیتے ہیں کہ رب نے یہ فرمایا اور وہ عالی شان اور بہت بڑی کبرائی والا ہے ۔ کبھی کبھی امر الٰہی سے چوری چھپے سننے والے کسی جن کے کان میں بھنک پڑجاتی ہے جو اس طرح ایک پر ایک پر ہو کر وہاں تک پہنچ جاتے ہیں ۔ راوی حدیث سیدنا سفیان نے اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پھیلا کر اس پر دوسرا ہاتھ اس طرح رکھ کر انہیں ہلا کر بتایا کہ اس طرح ۔ اب اوپر والا نیچے والے کو اور وہ اپنے سے نیچے والے کو وہ بات بتلا دیتا ہے یہاں تک کہ جادوگر اور کاہن کو وہ پہنچادیتے ہیں ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات پہنچاتے اس سے پہلے شعلہ پہنچ جاتا ہے اور کبھی اس کے پہلے ہی وہ پہنچا دیتے ہیں اس میں کاہن وجادوگر اپنے سوجھوٹ شامل کر کے مشہور کرتا ہے چونکہ وہ ایک بات سچی نکلتی ہے لوگ سب باتوں کو ہی سچا سمجھنے لگتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4800) ان تمام احایث کا بیان آیت «حَتّیٰٓ اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبٰکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَہُوَ الْعَلِیٰ الْکَبِیْرُ» ۱؎ (34-سبأ:23) کی تفسیر میں آئے گا ۔ ان شاءاللہ ۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ { فرشتے آسمانی امر کی بات چیت بادلوں پر کرتے ہیں جسے شیطان سن کر کاہنوں اور وہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملاتے ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3288) پھر فرمایا کہ ’ کافر شاعروں کی اتباع گمراہ لوگ کرتے ہیں ‘ ۔ عرب کے شاعروں کا دستور تھا کسی کی مذمت اور ہجو میں کچھ کہہ ڈالتے تھے لوگوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ ہو جاتی تھی اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگتی تھی ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ عرج میں جا رہے تھے راستے میں ایک شاعر شعر خوانی کرتے ہوئے ملا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اس شیطان کو پکڑ لو } یا فرمایا : { روکو ! تم میں سے کوئی شخص خون اور پیپ سے اپنا پیٹ بھرلے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ شعروں سے اپنا پیٹ بھرے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2259) انہیں ہر جنگل کی ٹھوکریں کھاتے کسی نے نہیں دیکھا ؟ ہر لغو میں یہ گھس جاتے ہیں ۔ کلام کے ہر فن میں بولتے ہیں ۔ کبھی کسی کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ کبھی کسی کی مذمت میں آسمان و زمین سر پر اٹھاتے ہیں جھوٹی خوشامد جھوٹی برائیاں گھڑی ہوئی بدیاں ان کے حصے میں آئی ہیں ۔ یہ زبان کے بھانڈ ہوتے ہیں لیکن کام کے کاہل ایک انصاری اور ایک دوسری قوم کے شخص نے ہجو کا مقابلہ کیا جس میں دنوں کے قوم کے بڑے بڑے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے ۔ پس اس آیت میں یہی ہے کہ ان کا ساتھ دینے والے گمراہ لوگ ہیں ۔ وہ وہ باتیں بکا کرتے ہیں جنہیں کسی نے کبھی کیا نہ ہو ۔ اسی لیے علماء نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اگر کسی شاعر نے نے اپنے شعر میں کسی ایسے گناہ کا اقرار کیا ہو جس پر حد شرع واجب ہوتی ہو تو آیا وہ حد اس پر جاری کی جائے گی یا نہیں ؟ دونوں طرف علماء گئے ۔ واقعی وہ فخر و غرور کے ساتھ ایسی باتیں بک دیتے ہیں کہ میں نے یہ کیا اور وہ کیا حالانکہ نہ کچھ کیا ہو اور نہ ہی کر سکتے ہوں ۔ امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہا نے اپنی خلافت کے زمانے میں نعمان بن عدی بن فضلہ کو بصرے کے شہر یسان کا گورنر مقرر کیا تھا ۔ وہ شاعر تھے ایک مرتبہ اپنے شعروں میں کہا کہ ” کیا حسینوں کو یہ اطلاع نہیں ہوئی کہ ان کا محبوب یسان میں ہے جہاں ہر وقت شیشے کے گلاسوں میں دور شراب چل رہا ہے اور گاؤں کی بھولی لڑکیوں نے گانے اور ان کے رقص وسرور مہیا ہیں ہاں اگر میرے کسی دوست سے ہو سکے تو اس بڑے اور بھرے ہوئے جام مجھے پلائے لیکن ان سے چھوٹے جام مجھے سخت ناپسند ہیں “ ۔ اللہ کرے امیر المؤمنین کو یہ خبر نہ پہنچے ورنہ برا مانیں گے اور سزادیں گے ۔ یہ اشعار سچ مچ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئے آپ رضی اللہ عنہ سخت ناراض ہوئے اور اسی وقت آدمی بھیجا کہ میں نے تجھے تیرے عہدے سے معزول کیا ۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا جس میں بسم اللہ کے بعد حم کی تین آیتیں «حم تَنزِیلُ الْکِتَابِ مِنَ اللہِ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیدِ الْعِقَابِ ذِی الطَّوْلِ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ إِلَیْہِ الْمَصِیرُ» ۱؎ (40-غافر:1-3) تک لکھ کر پھر تحریر فرمایا کہ ” تیرے اشعار سے مجھے سخت رنج ہوا ۔ میں تجھے تیرے عہدے سے معزول کرتا ہوں “ ۔ چنانچہ اس خط کو پڑھتے ہی نعمان دربار خلافت میں حاضر ہوئے اور با ادب عرض کیا کہ امیر المؤمنین واللہ نہ میں نے کبھی شراب پی نہ ناچ رنگ وگانا بجانا دیکھا ، نہ سنا ۔ یہ تو صرف شاعرانہ ترنگ تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہی میرا خیال ہے لیکن میری تو ہمت نہیں پڑتی کہ ایسے فحش گو شاعر کو کوئی عہدہ دوں “ ۔ پس معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی شاعر اپنے شعروں میں کسی جرم کے اعلان پر اگرچہ وہ قابل حد ہو تو حد نہیں لگائی جائے گی اس لیے کہ وہ جو کہتے ہیں سو کرتے نہیں ہاں وہ قابل ملامت اور لائق سرزنش ضرور ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ { پیٹ کو لہو پیپ سے بھر لینا اشعار سے بھرلینے سے بد تر ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2258) مطلب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو شاعر ہیں ، نہ ساحر ، نہ کاہن ، نہ مفتری ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر حال ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان عیوب سے برأت کا بہت بڑا عادل گواہ ہے جیسے فرمان ہے کہ «وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ وَمَا یَنبَغِی لَہُ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآنٌ مٰبِینٌ» ۱؎ (36-یس:69) ’ تو ہم نے انہیں شعر گوئی سکھائی ہے نہ اس کے لائق ہے یہ تو صرف نصیحت اور قرآن مبین ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیمٍ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیلًا مَّا تَذَکَّرُونَ تَنزِیلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (69-الحاقۃ:40-43) ’ یہ رسول اللہ کا قول ہے کسی شاعر کا نہیں تم میں ایمان کی کمی ہے یہ کسی کاہن کا قول نہیں ۔ تم میں نصیحت ماننے کا مادہ کم ہے یہ تو رب العلمین کی اتاری ہوئی کتاب ہے ‘ ۔ اس سورت میں بھی یہی فرمایا گیا کہ ’ یہ رب العلمین کی طرف سے اتری ہے ۔ روح الامین نے تیرے دل پر نازل فرمائی ہے عربی زبان میں ہے اس لیے کہ تو لوگوں کو آگاہ کر دے اسے شیاطین لے کر نہیں آئے نہ یہ ان کے لائق ہے نہ ان کی بس کی بات ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی الگ کر دئیے گئے ہیں ‘ ۔ جو جھوٹے مفتری اور بد کردار ہوتے ہیں ان کے پاس شیاطین آتے ہیں جو اچٹتی باتیں سن سنا کر ان کے کانوں میں آ کر ڈال جاتے ہیں ۔ محض جھوٹ بولنے والے یہ خود ہوتے ہیں شاعروں کی پشت پناہی اوباشوں کا کام ہے وہ تو ہر وادی میں سرگرداں ہوتے ہیں زبانی باتیں بناتیں ہیں عمل سے کورے رہتے ہیں ۔ اس کے بعد جو فرمان ہے اس کا شان نزول یہ ہے کہ { اس سے اگلی آیت جس میں شاعروں کی مذمت ہے جب اتری تو دربار رسول کے شعراء حسان بن ثابت ، عبداللہ بن رواحہ ، کعب بن مالک رضی اللہ عنہم روتے ہوئے دربار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعروں کی تو یہ گت بنی اور ہم بھی شاعر ہیں اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دوسری آیت تلاوت فرمائی کہ ’ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے تم ہو ذکر اللہ بکثرت کرنے والے تم ہو مظلوم ہو کر بدلہ لینے والے تم ہو پس تم ان سے مستثنٰی ہو ‘ } ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:26848:ضعیف) ۔ ایک روایت میں کعب رضی اللہ عنہ کا نام ہے ایک روایت میں صرف عبداللہ رضی اللہ عنہ کی اس شکایت پر کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاعر تو میں بھی ہوں “ ۔ اس دوسری آیت کا نازل ہونا مروی ہے لیکن یہ قابل نظر ، اس لیے کہ یہ سورت مکیہ ہے شعراء انصار جتنے بھی تھے وہ سب مدینے میں تھے پھر ان کے بارے میں اس آیت کا نازل ہونا یقیناً محل غور ہو گا اور جو حدیثیں بیان ہوئیں وہ مرسل ہیں اس وجہ سے اعتماد نہیں ہوسکتا ہے یہ آیت بے شک استثناء کے بارے میں ہے اور صرف یہی انصاری شعراء رضی اللہ عنہم ہی نہیں بلکہ اگر کسی شاعر نے اپنی جاہلیت کے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی اشعار کہے ہوں اور پھر مسلمان ہو جائے توبہ کر لے اور اس کے مقابلے میں ذکر اللہ بکثرت کرے وہ بیشک اس برائی سے الگ ہے ۔ حسنات سیئات کو دور کر دیتی ہے جب کہ اس نے مسلمان کو اور دین حق کو برا کہا تھا وہ برا تھا لیکن جب اس نے ان کی مدح کی تو برائی بھلائی سے بدل گئی ۔ جیسے عبداللہ بن زبعری رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو بیان کی تھی لیکن اسلام کے بعد بڑی مدح بیان کی اور اپنے اشعار میں اس ہجو کا عذر بھی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ میں اس وقت شیطانی پنجہ میں پھنسا ہوا تھا ۔ اسی طرح ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب باوجود آپ کا چچا زاد بھائی ہونے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا اور بہت ہجو کیا کرتا تھا جب مسلمان ہوئے تو ایسے مسلمان ہوئے کہ دنیا بھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب انہیں کوئی نہ تھا ۔ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کیا کرتے تھے اور بہت ہی عقیدت ومحبت رکھتے تھے ۔ [ رضی اللہ عنہ ] صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ابوسفیان صخر بن حرب جب مسلمان ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا مجھے تین چیزیں عطا فرمائیے ایک تو یہ کہ میرے لڑکے معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجئیے ۔ دوسرے مجھے کافروں سے جہاد کے لیے بھیجیے اور میرے ساتھ کوئی لشکر دیجئیے تاکہ جس طرح کفر میں مسلمانوں سے لڑا کرتا تھا اب اسلام میں کافروں کی خبرلوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں باتیں قبول فرمائیں ایک تیسری درخواست بھی کی جو قبول کی گئی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2501) پس ایسے لوگ اس آیت کے حکم سے اس دوسری آیت سے الگ کرلئے گئے ۔ ذکر اللہ خواہ وہ اپنے شعروں میں بکثرت کریں خواہ اور طرح اپنے کلام میں یقیناً وہ اگلے گناہوں کا بدلہ اور کفارہ ہے ۔ ’ اپنی مظلومی کا بدلہ لیتے ہیں ‘ ۔ یعنی کافروں کی ہجو کا جواب دیتے ہیں ۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا { ان کفار کی ہجو کرو جبرائیل علیہ السلام تمہارے ساتھ ہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3213) { کعب بن مالک رضی اللہ عنہ شاعر نے جب شعراء کی برائی قرآن میں سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم ان میں نہیں ہو مومن تو جس طرح اپنی جان سے جہاد کرتا ہے اپنی زبان سے بھی جہاد کرتا ہے ۔ واللہ تم لوگوں کے اشعار تو انہیں مجاہدین کے تیروں کی طرح چھید ڈالتے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:387/6:صحیح) پھر فرمایا ’ ظالموں کو اپنا انجام ابھی معلوم ہو جائے گا ۔ انہیں عذر معذرت بھی کچھ کام نہ آئیگی ‘ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ظالم سے بچو اس سے میدان قیامت میں اندھیروں میں رہ جاؤ گے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2578) آیت عام ہے خواہ شاعر ہوں خواہ شاعر نہ ہوں سب شامل ہیں ۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے ایک نصرانی کے جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ کر یہی آیت تلاوت فرمائی تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ جب اس آیت کی تلاوت کرتے تو اس قدر روتے کہ ہچکی بندھ جاتی ۔ روم میں جب فضالہ بن عبید تشریف لے گئے اس وقت ایک صاحب نماز پڑھ رہے تھے جب انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا ” اس سے مراد بیت اللہ کی بربادی کرنے والے ہیں “ ، کہا گیا کہ ” اس سے مراد اہل مکہ ہیں “ ، یہ بھی مروی ہے کہ ” مراد مشرک ہیں “ ۔ حقیقت یہ ہے کہ آیت عام ہے سب پر مشتمل ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے { ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے والد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت اپنی وصیت صرف دو سطروں میں لکھی ۔ جو یہ تھی « «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» » یہ ہے وصیت ابوبکر بن ابی قحافہ کی ۔ اس وقت کی جب کہ وہ دنیا چھوڑ رہے تھے ۔ جس وقت کافر بھی مومن ہو جاتا ، فاجر بھی توبہ کر لیتا تب کاذب کو بھی سچا سمجھتا ہے میں تم پر اپنا خلیفہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو بنا جا رہا ہوں ۔ اگر وہ عدل کرے تو بہت اچھا اور میرا گمان بھی ان کے ساتھ یہی ہے اور اگر وہ ظلم کرے اور کوئی تبدیلی کر دے تو میں غیب نہیں جانتا ۔ ظالموں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ کس لوٹنے کی جگہ وہ لوٹتے ہیں } ۔ ۱؎ (ضعیف) سورۃ الشعراء کی تفسیر بحمد اللہ ختم ہوئی ۔