فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ
سو تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو مت پکار، ورنہ تو عذاب دیے جانے والوں سے ہوجائے گا۔
مستحق سزا لوگوں سے الگ ہو جاؤ خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ صرف میری ہی عبادت کر ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر جو بھی ایسا کرے گا وہ ضرور مستحق سزا ہے ۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کر دے کہ بجز ایمان کے کوئی چیز نجات دہندہ نہیں ‘ ۔ پھر حکم دیتا ہے کہ ’ موحد متبع سنت لوگوں سے فروتنی کے ساتھ ملتا جلتا رہ ۔ اور جو بھی میرے حکم نہ مانے خواہ کوئی ہو تو اس سے بے تعلق ہو جا ۔ اور اپنی بیزاری کا اظہار کر دے ‘ ۔ یہ خاص طور کی خاص لوگوں کی تنبیہہ عام لوگوں کی تنبیہہ کے منافی نہیں کیونکہ یہ اس کا جز ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے ’ تو اس قوم کو ڈرادے جن کے بڑے بھی ڈرائے نہیں گئے اور جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا» ۱؎ (6-الأنعام:92) ’ تا کہ تو مکے والوں کو اور اس کے گرد والوں کو سب کو ڈرائے ‘ ۔ اور آیت میں ہے ’ تو اس قرآن سے انہیں ہوشیار کر دے ، جو اپنے رب کے پاس جمع ہونے سے خوف زدہ ہو رہے ہیں ‘ ۔ دیگر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ’ تو اس قرآن سے پرہیزگاروں کو خوشخبری سنا دے اور سرکشوں کو ڈرادے ‘ ۔ اور آیت میں فرمایا «لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْ بَلَغَ» ۱؎ (6-الأنعام:19) ’ تاکہ میں اسی قرآن کے ساتھ تمہیں اور جسے بھی یہ پہنچے ڈرادوں ‘ ۔ اور فرمان ہے ’ اس کے ساتھ ان تمام فرقوں میں سے جو بھی کفر کرے اس کی سزا جہنم ہے ‘ ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے { اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جس کے کان میری رسالت کی بات پڑ جائے خواہ یہودی ہو یا نصرانی پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو ضرور وہ جہنم میں جائے گا } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:153) اس آیت کی تفسیر میں بہت سی حدیثیں ہیں انہیں سن لیجئے ۔ (١) مسند احمد میں ہے { جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ اور «یَا صَبَاحَاہ» کرکے آواز دی ۔ لوگ جمع ہو گئے جو نہیں آسکتے تھے انہوں نے اپنے آدمی بھیج دئیے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے اولاد عبدالمطلب ! اے اولاد فہر ! بتاؤ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر تمہارے دشمن کا لشکر پڑا ہوا ہے اور گھات میں ہے ۔ موقعہ پاتے ہی تم سب کو قتل کر ڈالے گا تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟} سب نے بیک زبان کہا کہ ہاں ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا ہی سمجھیں گے ۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { سن لو میں تمہیں آنے والے سخت عذابوں سے ڈرانے والا ہوں } ۔ اس پر ابولہب ملعون نے کہا تو ہلاک ہو جائے یہی سنانے کے لیے تو نے ہمیں بلایا تھا اس کے جواب میں سورۃ «تَبَّتْ یَدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ» ۱؎ (111-المسد:1-5) اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4971) (٢) مسند احمد میں ہے { اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے { اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، اے صفیہ بنت عبدالطلب سنو میں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہیں آ سکتا ۔ ہاں میرے پاس جو مال ہو جتنا تم چاہو میں دینے کے لیے تیار ہوں ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:205) (٣) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { اس آیت کے اترتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریشیوں کو بلایا اور انہیں ایک ایک کر کے اور عام طور پر خطاب کر کے فرمایا : { اے قریشیو ! اپنی جانیں جہنم سے بچالو اے کعب کے خاندان والو ! اپنی جانیں آگ سے بچالو اے ہاشم کی اولاد کے لوگو ! اپنے آپ کو اللہ کے عذابوں سے چھڑوالو ۔ اے عبدالمطلب کے لڑکو ! اللہ کے عذابوں سے بچنے کی کوشش کرو ۔ اے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] ! اپنی جان کو دوزخ سے بچالے قسم اللہ کی میں اللہ کے ہاں کی کسی چیز کا مالک نہیں ۔ بیشک تمہاری قرابت داری ہے جس کے دنیوی حقوق میں ہر طرح ادا کرنے کو تیار ہوں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:204) بخاری مسلم میں بھی قدرے الفاظ کی تبدیلی سے یہ حدیث مروی ہے اسمیں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی صفیہ اور اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے یہ بھی فرمایا کہ { میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے طلب کر لو } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3527) ابویعلیٰ میں ہے کہ { آپ نے فرمایا : { اے قصی ! اے ہاشم ! اے عبد مناف کی اولادو ! یاد رکھو میں ڈرانے والا ہوں اور موت بدلہ دینے والی ہے اس کا چھاپہ پڑنے ہی والا ہے اور قیامت وعدہ گاہ ہے } } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:6149:ضعیف) (٤) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑی پر چڑھ گئے جس کی چوٹی پر پتھر تھے وہاں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے بنی عبد مناف میں تو صرف چوکنا کر دینے والا ہوں میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے دشمن کو دیکھا اور دوڑ کر اپنے عزیزوں کو ہوشیار کرنے کے لیے آیا تاکہ وہ بچاؤ کر لیں دور سے ہی اس نے غل مچانا شروع کر دیا کہ پہلے ہی خبردار ہو جائیں } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:207) (۵) سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { جب یہ آیت اتری تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو جمع کرلیا یہ تیس شخص تھے جب یہ کھا پی چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمے لے ۔ اور میرے بعد میرے وعدے پورے کرے وہ جنت میں بھی میرا ساتھی اور میری اہل میں خلیفہ ہوگا } ۔ تو ایک شخص نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو سمندر ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون کھڑا ہوسکتا ہے ؟ تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن کوئی تیار نہ ہوا تو میں نے کہا ” یا رسول اللہ میں اس کے لیے تیار ہوں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:111/1:ضعیف) ایک اور سند میں اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبدالمطلب کو جمع کیا یہ ایک جماعت کی جماعت تھی اور بڑے کھاؤ تھے ایک شخص ایک ایک بکری کا بچہ کھاجاتا تھا اور ایک بڑا بدھنا دودھ کا پی جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے کھانے کے لیے صرف تین پاؤ کے قریب کھانا پکوایا لیکن اللہ نے اسی میں اتنی برکت دی کہ سب پیٹ بھر کر کھاچکے اور خوب آسودہ ہو کر پی چکے لیکن نہ تو کھانے میں کمی نظرآئی تھی نہ پینے کی چیز گھٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اے اولاد عبدالمطلب میں تمہاری طرف خصوصا اور تمام لوگوں کی طرف عموماً نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اس وقت تم ایک معجزہ بھی میرا دیکھ چکے ہو ۔ اب تم میں سے کون تیار ہے کہ مجھ سے بیعت کرے وہ میرا بھائی اور میرا ساتھی ہوگا لیکن ایک شخص بھی مجمع سے کھڑا نہ ہوا سوائے میرے اور میں اس وقت عمر کے لحاظ سے ان سب سے چھوٹا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم بیٹھ جاؤ } ، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اور تینوں مرتبہ بجز میرے اور کوئی کھڑا نہ ہوا ۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بیعت لی } ۔ ۱؎ (مسند احمد:159/1:ضعیف) امام بہیقی رحمہ اللہ دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ { جب یہ آیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اگر میں اپنی قوم کے سامنے ابھی ہی اسے پیش کروں گا تو وہ نہ مانیں گے ۔ اور ایسا جواب دیں گے جو مجھ پر گراں گزرے } ۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اتنے میں جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمانے لگے ” محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیل ارشاد میں تاخیر کی تو ڈر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سزا ہوگی “ ۔ اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا : { مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرادوں میں نے یہ خیال کر کے اگر پہلے ہی سے ان سے کہا گیا تو یہ مجھے ایسا جواب دیں گے جس سے مجھے ایذاء پہنچے میں خاموش رہا لیکن جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تجھے عذاب ہو گا تو اب اے علی تم ایک بکری ذبح کر کے گوشت پکالو ۔ اور کوئی تین سیر اناج بھی تیار کرلو اور ایک بدھنا دودھ کا بھی بھرلو ۔ اور اولاد عبدالمطلب کو بھی جمع کرلو } ۔ میں نے ایسا ہی کیا اور سب کو دعوت دے دی چالیس آدمی جمع ہوئے یا ایک آدھ کم یا ایک آدھ زیادہ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے ۔ ابوطالب ، حمزہ ، عباس ، اور ابولہب کافر خبیث ۔ میں نے سالن پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک بوٹی لے کر کچھ کھائی پھر اسے ہنڈیا میں ڈال دیا اور فرمایا : { لو اللہ کا نام لو اور کھانا شروع کرو } ۔ سب نے کھانا شروع کیا یہاں تک کہ پیٹ بھر گئے لیکن اللہ کی قسم گوشت اتنا ہی تھا جتنا رکھتے وقت رکھا تھا صرف ان کی انگلیوں کے نشانات تو تھے مگر گوشت کچھ بھی نہ گھٹا تھا ۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا گوشت تو کھالیتا تھا ۔ پھر مجھ سے فرمایا : { اے علی انہیں پلاؤ } ۔ میں وہ بدھنا لایا سب نے باری باری شکم سیر ہو کر پیا اور خوب آسودہ ہو گئے لیکن دودھ بالکل کم نہ ہوا ۔ حالانکہ ان میں سے ایک ایک اتنا دودھ پی لیا کرتا تھا ۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمانا چاہا لیکن ابولہب جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا لو صاحب اب معلوم ہوا کہ یہ تمام جادوگری محض اس لیے تھی ۔ چنانچہ مجمع اسی وقت اکھڑ گیا اور ہر ایک اپنی راہ لگ گیا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت وتبلیغ کو موقعہ نہ ملا ۔ دوسرے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : { آج پھر اسی طرح ان سب کی دعوت کرو کیونکہ کل اس نے مجھے کچھ کہنے کا وقت ہی نہیں دیا } ۔ میں نے پھر اسی طرح کا انتظام کیا سب کو دعوت دی آئے کھایا پیا پھر کل کی طرح آج بھی ابولہب نے کھڑے ہو کر وہی بات کہی اور اسی طرح سب تتر بتر ہو گئے ۔ تیسرے دن پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہی فرمایا آج جب سب کھا پی چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے اپنی گفتگو شروع کر دی اور فرمایا : { اے بنو عبدالمطلب واللہ کوئی نوجوان شخص اپنی قوم کے پاس اس سے بہتر بھلائی نہیں لایا ، جو میں تمہارے پاس لایا ہوں میں دنیا اور آخرت کی بھلائی لایا ہوں } } ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:178/2:ضعیف) اور روایت میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اب بتاؤ تم میں سے کون میرے ساتھ اتفاق کرتا ہے اور کون میرا ساتھ دیتا ہے ؟ مجھے اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا ہے کہ پہلے میں تمہیں اس کی دعوت دوں جو آج میری مان لے گا وہ میرا بھائی ہو گا اور یہ درجے ملیں گے } ۔ لوگ سب خاموش ہو گئے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ جو اس وقت اس مجمع میں سب سے کم عمر تھے اور دکھتی آنکھوں والے اور موٹے پیٹ والے اور بھری پنڈلیوں والے تھے ، بول اٹھے یا رسول اللہ اس امر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وزارت میں قبول کرتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ { یہ میرا بھائی ہے اور ایسی فضیلتوں والا ہے تم اس کی سنو اور مانو } ۔ یہ سن کر وہ سب لوگ ہنستے ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوطالب سے کہنے لگے لے اب تو اپنے بچے کی سن اور مان } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:40/19:ضعیف) لیکن اس کا راوی عبدالغفار بن قاسم بن ابی مریم متروک ہے کذاب ہے اور ہے بھی شیعہ ۔ ابن مدینی وغیرہ فرماتے ہیں یہ حدیثیں گھڑلیاکرتا تھا ، دیگر ائمہ حدیث نے بھی اس کو ضعیف لکھا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ اس دعوت میں صرف بکری کے ایک پاؤں کا گوشت پکا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ { جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے لگے تو انہوں نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آج جیسا جادو تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ یہ ہے کہ { کون ہے جو میرا قرض اپنے ذمہ لے اور میری اہل میں میرا خلیفہ بنے اس پر سب خاموش رہے اور عباس بھی چپ تھے صرف اپنے مال کی بخل کی وجہ سے ۔ میں عباس کو خاموش دیکھ کر خاموش ہو رہا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی فرمایا دوبارہ بھی سب طرف خاموشی تھی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں بول پڑا ۔ میں اس وقت ان سب سے گری پڑی حالت والا ۔ چندھی آنکھوں والا بڑے پیٹ والا اور بوجھل پنڈلیوں والا تھا } } ۔ ۱؎ (ضعیف) ان روایتوں میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { کون میرا قرض اپنے ذمے لیتا ہے اور میری اہل کی میرے بعد حفاظت اپنے ذمے لیتا ہے ؟ } اس سے مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ جب میں اس تبلیغ دین کو پھیلاؤں گا اور لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلاؤں گا تو سب کے سب میرے دشمن ہو جائیں گے اور مجھے قتل کر دیں گے ۔ یہی کھٹکا آپ کو لگا رہا یہاں تک کہ یہ آیت اتری «وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدۃ:67) ’ اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے بچالے گا ‘ ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے خطر ہو گئے ۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پہرہ چوکی بھی بٹھاتے تھے لیکن اس آیت کے اترنے کے بعد وہ بھی ہٹادی ۔ اس وقت فی الواقع تمام بنو ہاشم میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ ایمان والا اور تصدیق ویقین والا کوئی نہ تھا ۔ اس لیے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقرار کیا ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر عام دعوت دی اور لوگوں کو توحید خالص کی طرف بلایا اور اپنی نبوت کا اعلان کیا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ ایک مرتبہ ابودرداء رضی اللہ عنہ اپنی مسجد میں بیٹھے ہوئے وعظ فرما رہے تھے فتوے دے رہے تھے ۔ مجلس کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ۔ ہر ایک کی نگاہیں آپ کی چہرے پر تھیں اور شوق سے سن رہے تھے لیکن آپ کے لڑکے اور گھر کے آدمی آپس میں بے پرواہی سے اپنی باتوں میں مشغول تھے ۔ کسی نے ابودرداء رضی اللہ عنہ کی اس طرف توجہ دلائی کہ اور سب لوگ تو دل سے آپ کی علمی باتوں میں دلچسپی لے رہے ہیں اور آپ کے اہل بیت اس سے بالکل بےپرواہ ہیں وہ اپنی باتوں میں نہایت بےپرواہی سے مشغول ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے دنیا سے بالکل کنارہ کشی کرنے والے انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں اور ان پر سب سے زیادہ سخت اور بھاری ان کے قرابت دار ہوئے ہیں اسی بارے میں آیت «وَأَنذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ» (26-سورۃالشعراء:214-216) ہے ۔ ۱؎ (تاریخ دمشق لا بن عساکر:587/10:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ اپنے تمام امور میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھو وہی تمہارا حافظ و ناصر ہے وہی تمہاری تائید کرنے والا اور تمہارے کلمے کو بلند کرنے والا ہے ۔ اس کی نگاہیں ہر وقت تم پر ہیں ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّــحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَـقُوْمُ» ۱؎ (52-الطور:48) ’ اپنے رب کے حکموں پر صبر کر ۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے‘ ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ ’ جب تو نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہے تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے ۔ ہم تمہارے رکوع سجود دیکھتے ہیں کھڑے ہو یا بیٹھے ہو یا کسی حالت میں ہو ہماری نظروں میں ہو ‘ ۔ یعنی تنہائی میں تو نماز پڑھے تو ہم دیکھتے ہیں اور جماعت سے پڑھے تو تو ہماری نگاہ کے سامنے ہوتا ہے یہ بھی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کی چیزیں دکھاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کے مقتدی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں رہتے تھے ۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { صفیں درست کر لیا کرو میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا رہتا ہوں } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:718) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ مطلب بھی بیان کرتے ہیں کہ ” ایک نبی کی پیٹھ سے دوسرے نبی کی پیٹھ کی طرف منتقل ہونا برابر دیکھتے رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت نبی دنیا میں آئے “ ۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتیں خوب سنتا ہے ، ان کی حرکات وسکنات کو خوب جانتا ہے جیسے فرماتا ہے آیت «وَمَا تَکُوْنُ فِیْ شَاْنٍ وَّمَا تَتْلُوْا مِنْہُ مِنْ قُرْاٰنٍ وَّلَا تَعْمَلُوْنَ مِنْ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیْکُمْ شُہُوْدًا اِذْ تُفِیْضُوْنَ فِیْہِ» ۱؎ (10-یونس:61) ، ’ تو جس حالت میں ہو تم جتنا قرآن پڑھو تم جو عمل کرو اس پر ہم شاہد ہیں ‘ ۔