كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ
عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔
ہود علیہ السلام اور ان کی قوم حضرت ہود علیہ السلام کا قصہ بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے عادیوں کو جو احقاف کے رہنے والے تھے اللہ کی طرف بلایا ۔ احقاف ملک یمن میں حضر موت کے پاس ریتلی پہاڑیوں کے قریب ہے ان کا زمانہ نوح علیہ السلام کے بعد کا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں بھی ان کا ذکر گزر چکا ہے کہ انہیں قوم نوح کا جانشین بنایا گیا اور انہیں بہت کچھ کشادگی اور وسعت دی گئی ۔ ڈیل ڈول دیا بڑی قوت طاقت دی پورے مال اولاد کھیت باغات پھل اور اناج دیا ۔ بکثرت دولت اور زر بہت سی نہریں اور چشمے جا بجا دئیے ۔ الغرض ہر طرح کی آسائش اور آسانی مہیا کی لیکن رب کی تمام نعمتوں کی ناقدری کرنے والے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں نے اپنے نبی علیہ السلام کو جھٹلایا ۔ یہ انہی میں سے تھے نبی علیہ السلام نے انہیں سمجھایا بجھایا ڈرایا دھمکایا ۔ اپنا رسول ہونا ظاہر فرمایا ۔ اپنی اطاعت اور اللہ کی عبادت و وحدانیت کی دعوت دی جیسے کہ نوح علیہ السلام نے دی تھی ۔ اپنا بے لاگ ہونا طالب دنیا نہ ہونا بیان فرمایا ۔ اپنے خواص کا بھی ذکر کیا یہ جو فخر و ریا کے طور پر اپنے مال برباد کرتے تھے اور اونچے اونچے مشہور ٹیلوں پر اپنی قوت کے اور مال کے اظہار کے لیے بلند و بالا علامتیں بناتے تھے اس فعل عبث سے انہیں ان کے نبی ہود علیہ السلام نے روکا کیونکہ اس میں بے کار دولت کا کھونا وقت کا برباد کرنا اور مشقت اٹھانا ہے جس سے دین دنیا کا کوئی فائدہ نہ مقصود ہوتا ہے نہ متصور ۔ بڑے بڑے پختہ اور بلند برج اور مینار بناتے تھے جس کے بارے میں ان کے نبی علیہ السلام نے نصیحت کی کہ ” کیا تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ یہیں ہمیشہ رہو گے محبت دنیا نے تمہیں آخرت بھلادی ہے لیکن یاد رکھو تمہاری یہ چاہت بےسود ہے ۔ دنیا زائل ہونے والی ہے تم خود فنا ہونے والے ہو “ ۔ ایک قرأت میں «کَاَنَّکُمْ خَالِدُوْنَ» ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب مسلمانوں نے غوطہٰ میں محلات اور باغات کی تعمیر اعلی پیمانے پر ضروت سے زیادہ شروع کر دی تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے دمشق کے رہنے والو سنو ! لوگ سب جمع ہو گئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ ” تمہیں شرم نہیں آتی تم خیال نہیں کرتے کہ تم نے وہ جمع کرنا شروع کر دیا جسے تم کھا نہیں سکتے ۔ تم نے وہ مکانات بنانے شروع کر دئیے جو تمہارے رہنے سہنے کے کام نہیں آتے تم نے وہ دور دراز کی آرزوئیں کرنی شروع کر دیں جو پوری ہونی محال ہیں ۔ کیا تم بھول گئے تم سے اگلے لوگوں نے بھی جمع جتھا کر کے سنبھال سنبھال کر رکھا تھا ۔ بڑے اونچے اونچے پختہ اور مضبوط محلات تعمیر کئے تھے بڑی بڑی آرزوئیں باندھی تھیں لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دھوکے میں رہ گئے ان کی پونجی برباد ہو گئی ان کے مکانات اور بستیاں اجڑگئیں ۔ عادیوں کو دیکھو کہ عدن سے لے کر عمان تک ان کے گھوڑے اور اونٹ تھے لیکن آج وہ کہاں ہیں ؟ ہے کوئی ایسا بیوقوف کہ قوم عاد کی میراث کو دو درہموں کے بدلے بھی خریدے “ ۔ ان کے مال ومکانات کا بیان فرما کر ’ ان کی قوت وطاقت کا بیان فرمایا کہ بڑے سرکش ، بتکبر اور سخت لوگ تھے ‘ ۔ نبی علیہ صلوات اللہ نے انہیں اللہ سے ڈرنے اور اپنی اطاعت کرنے کا حکم دیا کہ عبادت رب کی کرو اطاعت اس کے رسول کی کرو پھر وہ نعمتیں یاد دلائیں جو اللہ نے ان پر انعام کی تھیں جنہیں وہ خود جانتے تھے ۔ مثلا چوپائے جانور اور اولاد باغات اور دریا پھر اپنا اندیشہ ظاہر کیا کہ ” اگر تم نے میری تکذیب کی اور میری مخالفت پر جمے رہے تو تم پر عذاب اللہ برس پڑے گا لالچ اور ڈر دونوں دکھائے مگر بےسود رہیں “ ۔