وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔
سب سے بڑا گناہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : تیرا اللہ کے ساتھ شرک کرنا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اس نے کہا : اس سے کم ؟ فرمایا : تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالنا کہ تو اسے کھلائے گا کہاں سے ؟ پوچھا : اس کے بعد ؟ فرمایا : تیرا اپنے پڑوس کی کسی عورت سے بدکاری کرنا ۔ } پس اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں موجود ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4761) اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر جانے لگے ، تنہا تھے ۔ میں بھی ساتھ ہو لیا ۔ آپ ایک اونچی جگہ بیٹھ گئے ۔ میں آپ سے نیچے بیٹھ گیا اور اس تنہائی کے موقعہ کو غنیمت سمجھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ سوالات کئے ، جو اوپر مذکور ہوئے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26509) حجۃ الوداع میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { چار گناہوں سے بہت بچو ؛ اللہ کے ساتھ شرک ، کسی حرمت والے نفس کا قتل ، زناکاری اور چوری ۔ } ۱؎ (مسند احمد:339/4:حسن) مسند احمد میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے پوچھا : زنا کی بابت تم کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : وہ حرام ہے اور قیامت تک حرام ہے ۔ آپ نے فرمایا : ہاں سنو ! انسان کا اپنے پڑوس کی عورت سے زنا کرنا دوسری دس عورتوں کے زنا سے بھی بدتر ہے ۔ پھر آپ نے فرمایا : چوری کی نسبت کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے یہی جواب دیا کہ وہ حرام ہے ، اللہ و رسول اسے حرام قرار دے چکے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : سنو ! دس جگہ کی چوری بھی اتنی بری نہیں جیسی پڑوس کی ایک جگہ کی چوری ۔ } ۱؎ (مسند احمد:8/6:جید) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { شرک کے بعد اس سے بڑا گناہ کوئی نہیں کہ انسان اپنا نطفہ اس رحم میں ڈالے جو اس کے لیے حلال نہیں ۔ } ۱؎ (الورع لابن ابی الدنیا:137:ضعیف) یہ بھی مروی ہے کہ { بعض مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا : آپ کی دعوت اچھی ہے ، سچی ہے لیکن ہم نے تو شرک بھی کیا ہے ، قتل بھی کیا ہے ، زناکاریاں بھی کی ہیں اور یہ سب بکثرت کیے ہیں تو فرمائیے ہمارے لیے کیا حکم ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور آیت «قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) نازل ہوئی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26504) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : { اللہ تمہیں اس سے منع فرماتا ہے کہ تم خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت کرو اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنے کتے کو تو پالو اور اپنے بچے کو قتل کر ڈالو ۔ اور اس سے بھی منع فرماتا ہے کہ اپنی پڑوسن سے بدکاری کرو ۔ } ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:277/6) «اثام» جہنم کی ایک وادی کا نام ہے ۔ یہی وہ وادیاں ہیں جن میں زانیوں کو عذاب کیا جائے گا ۔ اس کے معنی عذاب و سزا کے بھی آتے ہیں ۔ لقمان حکیم رحمہ اللہ کی نصیحتوں میں ہے کہ اے بچے ! زناکاری سے بچنا ، اس کے شروع میں ڈر ، خوف ہے اور اس کا انجام ندامت و حسرت ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ «غی» اور «اثام» دوزخ کے دو کنوئیں ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:29/19) اللہ ہمیں محفوظ رکھے ۔ «اثام» کے معنی بدلے کے بھی مروی ہیں اور یہی ظاہر آیت کے بھی مشابہ بھی ہے ۔ اور گویا اس کے بعد کی آیت اسی بدلے اور سزا کی تفسیر ہے کہ اسے بار بار عذاب کیا جائے گا اور سختی کی جائے گی اور ذلت کے دائمی عذابوں میں پھنس جائے گا ۔ «اَللّٰھُمَّ احْفَظْنَا» ان کاموں کے کرنے والے کی سزا تو بیان ہو چکی ہے مگر اس سزا سے وہ بچ جائیں گے جو دنیا ہی میں اس سے توبہ کر لیں ، اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ بھی قبول ہے جو آیت سورۃ نساء میں ہیں «وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مٰتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:93) وہ اس کے خلاف نہیں گو وہ مدنی آیت ہے لیکن وہ مطلق ہے تو وہ محمول کی جائے گی ان قاتلوں پر جو اپنے اس فعل سے توبہ نہ کریں اور یہ آیت ان قاتلوں کے بارے میں ، جو توبہ کریں ۔ پھر مشرکوں کی بخشش نہ ہونے کا بیان فرمایا ہے اور صحیح احادیث سے بھی قاتل کی توبہ کی مقبولیت ثابت ہے ۔ جیسے اس شخص کا قصہ جس نے ایک سو قتل کیے تھے اور اس کی توبہ قبول ہوئی ۔ وغیرہ ۔ یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے گناہ کے کام کئے تھے ۔ اسلام میں آنے کے بعد نیکیاں کیں تو اللہ نے ان گناہ کے کاموں کے بدلے نیکیوں کی توفیق عنایت فرمائی ۔ اس آیت کی تلاوت کے وقت آپ ایک عربی شعر پڑھتے تھے جس میں احوال کے تغیر کا بیان ہے جیسے گرمی سے ٹھنڈک ۔ عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ دنیا کا ذکر ہے کہ انسان کی بری خصلت کو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے نیک عادت سے بدل دیتا ہے ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ بتوں کی پرستش کے بدلے اللہ تعالیٰ کی توفیق انہیں ملی ۔ مومنوں سے لڑنے کے بجائے کافروں سے جہاد کرنے لگے ۔ مشرکہ عورتوں سے نکاح کے بجائے مومنہ عورتوں سے نکاح کئے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : گناہ کے بدلے ثواب کے عمل کرنے لگے ۔ شرک کے بدلے توحید و اخلاص ملا ۔ بدکاری کے بدلے پاکدامنی حاصل ہوئی ۔ کفر کے بدلے اسلام ملا ۔ ایک معنی تو اس آیت کے یہ ہوئے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ خلوص کے ساتھ ان کی جو توبہ تھی ، اس سے خوش ہو کر اللہ عزوجل نے ان کے گناہوں کو نیکوں میں بدل دیا ۔ یہ اس لیے کہ توبہ کے بعد جب کبھی انہیں اپنے گزشتہ گناہ یاد آتے تھے ، انہیں ندامت ہوتی تھی ۔ یہ غمگین ہو جاتے تھے ، شرمانے لگتے تھے اور استغفار کرتے تھے ۔ اس وجہ سے ان کے گناہ اطاعت سے بدل گئے گو وہ ان کے نامہ اعمال میں گناہ کے طور پر لکھے ہوئے تھے لیکن قیامت کے دن وہ سب نیکیاں بن جائیں گے ۔ جیسے کہ احادیث و آثار میں ثابت ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو جنت میں داخل ہونے والوں میں سب سے آخر میں جنت میں داخل ہو گا اور سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا ، یہ ایک وہ شخص ہو گا جسے اللہ کے سامنے لایا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اس کے بڑے بڑے گناہوں کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے بازپرس کرو چنانچہ اس سے سوال ہو گا کہ فلاں فلاں دن تو نے فلاں کام کیا تھا ؟ فلاں دن فلاں گناہ کیا تھا ؟ یہ ایک کا بھی انکار نہ کر سکے گا ، اقرار کرے گا ۔ آخر میں کہا جائے گا : تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی ہے تو اب اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا : اے میرے پروردگار ! میں نے اور بھی بہت سے اعمال کئے تھے جنہیں یہاں پا نہیں رہا ۔ یہ فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ آپ کے مسوڑھے دیکھے جانے لگے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:190ـ314) [ مسلم ] آپ فرماتے ہیں کہ { جب انسان سوتا ہے تو فرشتہ شیطان سے کہتا ہے : مجھے اپنا صحیفہ جس میں اس کے گناہ لکھے ہوئے ہیں دے ، وہ دیتا ہے تو ایک ایک نیکی کے بدلے دس دس گناہ وہ اس کے صحیفے سے مٹا دیتا ہے اور انہیں نیکیاں لکھ دیتا ہے پس تم میں سے جو بھی سونے کا ارادہ کرے ، وہ چونتیس دفعہ «اللہ اکبر» کہے اور تینتیس دفعہ «الحمدللہ» کہے اور تینتیس دفعہ «سبحان اللہ» کہے ، یہ مل کر سو مرتبہ ہو گئے ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:3451:ضعیف) [ ابن ابی دنیا ] سلمان فرماتے ہیں : انسان کو قیامت کے دن نامہ اعمال دیا جائے گا ۔ وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اوپر برائیاں درج ہوں گی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا ۔ اسی وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی ۔ اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو وہاں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے جن کے پاس کچھ گناہ ہوں گے ۔ پوچھا گیا کہ وہ کون سے لوگ ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ جن کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ بھلائیوں سے بدل دے گا ۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جنتی جنت میں چار قسم کے جائیں گے ؛ متقین یعنی پرہیزگاری کرنے والے ، پھر شاکرین یعنی شکر الٰہی کرنے والے ، پھر خائفین یعنی خوف الٰہی رکھنے والے ، پھر اصحاب یمین یعنی دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال پانے والے ۔ پوچھا گیا کہ انہیں اصحاب یمین کیوں کہا جاتا ہے ؟ جواب دیا : اس لیے کہ انہوں نے نیکیاں ، بدیاں سب کی تھیں ۔ ان کے اعمال نامے ان کے داہنے ہاتھ ملے ، اپنی بدیوں کا ایک ایک حرف پڑھ کر یہ کہنے لگے کہ اے اللہ ! ہماری نیکیاں کہاں ہیں ؟ یہاں تو سب بدیاں لکھی ہوئی ہیں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان بدیوں کو مٹا دے گا اور ان کے بدلے نیکیاں لکھ دے گا ۔ انہیں پڑھ کر خوش ہو کر اب تو یہ ایک دوسروں سے کہیں گے کہ آؤ ، ہمارے اعمال نامے دیکھو ۔ جنتیوں میں اکثر یہی لوگ ہونگے ۔ علی بن حسین زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : برائیوں کو بھلائیوں میں بدلنا آخرت میں ہو گا ۔ مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخشے گا اور انہیں نیکیوں میں بدل دے گا ۔ مکحول رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ حدیث بیان کی کہ { ایک بہت بوڑھے ضعیف آدمی جن کی بھویں آنکھوں پر اتر آئی تھیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایک ایسا شخص ہوں جس نے کوئی غداری ، کوئی گناہ ، کوئی بدکاری باقی نہیں چھوڑی ۔ میرے گناہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اگر تمام انسانوں پر تقسیم ہو جائیں تو سب کے سب غضب الٰہی میں گرفتار ہو جائیں ، کیا میری بخشش کی بھی کوئی صورت ہے ؟ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم مسلمان ہو جاؤ ۔ اس نے کلمہ پڑھ لیا کہ «اَشْھَدُاَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ» تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تیری تمام برائیاں ، گناہ ، بدکاریاں سب کچھ معاف کر دے گا بلکہ جب تک تو اس پر قائم رہے گا ، اللہ تعالیٰ تیری برائیاں بھلائیوں میں بدل دے گا ۔ اس نے پھر پوچھا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے چھوٹے بڑے سب گناہ صاف ہو جائیں گے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ہاں سب کے سب ، پھر تو وہ شخص خوشی خوشی واپس جانے لگا اور تکبیر و تہلیل پکارتا ہوا لوٹ گیا ۔ } [ ابن ابی حاتم ] { سیدنا ابوفروہ رضی اللہ عنہ حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے سارے گناہ کئے ہوں ۔ جو جی میں آیا ہو ، پورا کیا ہو ۔ کیا ایسے شخص کی بھی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : تم مسلمان ہو گئے ہو ؟ اس نے کہا : جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا : اب نیکیاں کرو ، برائیوں سے بچو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی نیکوں میں بدل دے گا ۔ اس نے کہا : میری غداریاں اور بدکاریاں بھی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ۔ اب وہ اللہ اکبر کہتا ہوا واپس چلا گیا ۔ } [ طبرانی ] ۱؎ (طبرانی کبیر:7235:صحیح) { ایک عورت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور دریافت کیا فرمایا کہ مجھ سے بدکاری ہو گئی ، اس سے بچہ ہو گیا ، میں نے اسے مار ڈالا ۔ اب کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب نہ تیری آنکھیں ٹھنڈی ہو سکتی ہیں ، نہ اللہ کے ہاں تیری بزرگی ہو سکتی ہے ، تیرے لیے توبہ ہرگز نہیں ۔ وہ روتی پیٹتی واپس چلی گئی ۔ صبح کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر میں نے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا : تو نے اس سے بہت ہی بری بات کہی ، کیا تو ان آیتوں کو قرآن میں نہیں پڑھتا ؟ «وَالَّذِینَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ أَثَامًا یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیہِ مُہَانًا إِلَّا مَن تَابَ» مجھے بڑا ہی رنج ہوا اور میں لوٹ کر اس عورت کے پاس پہنچا ۔ اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں ۔ وہ خوش ہو گئی اور اسی وقت سجدے میں گر پڑی اور کہنے لگی : اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میرے لیے چھٹکارے کی صورت پیدا کر دی ۔ } [ طبرانی ] ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:26515:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا پہلا فتویٰ سن کر وہ حسرت و افسوس کے ساتھ یہ کہتی ہوئی واپس چلی گئی کہ ہائے ہائے ، یہ اچھی صورت کیا جہنم کے لے بنائی گئی تھی ؟ اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اس عورت کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے ۔ تمام مدینہ اور ایک ایک گلی چھان ماری لیکن کہیں پتہ نہ چلا ۔ اتفاق سے رات کو وہی عوت پھر آئی ۔ تب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں صحیح مسئلہ بتلایا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرے لیے چھٹکارے کی صورت بنائی اور میری توبہ کو قبول فرمایا ۔ یہ کہہ کر اس کے ساتھ جو لونڈی تھی ، اسے آزاد کر دیا ۔ اس لونڈی کی ایک لڑکی بھی تھی اور سچے دل سے توبہ کر لی ۔ پھر فرماتا ہے اور اپنے عام لطف و کرم ، فضل و رحم کی خبر دیتا ہے کہ جو بھی اللہ کی طرف جھکے اور اپنی سیاہ کاریوں پر نادم ہو کر توبہ کرے ، اللہ اس کی سنتا ہے ، قبول فرماتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے ۔ جیسا ارشاد ہے «وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا» ۱؎ (4-النساء:110) ’ جو برا عمل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے ، وہ اللہ کو غفور رحیم پائے گا ۔ ‘ اور جگہ ارشاد ہے «أَلَم یَعلَموا أَنَّ اللہَ ہُوَ یَقبَلُ التَّوبَۃَ عَن عِبادِہِ» ۱؎ (9-التوبۃ:104) ’ کیا انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ توبہ کو قبول فرمانے والا ہے ۔ ‘ اور آیت میں ہے «قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ’ میرے ان بندوں سے جو گنہگار ہیں ، کہہ دیجئیے کہ وہ میری رحمت سے ناامید نہ ہوں ۔ ‘ یعنی توبہ کرنے والا محروم نہیں ۔