قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔
حرام چیزوں پر نگاہ نہ ڈالو حکم ہوتا ہے کہ ’ جن چیزوں کا دیکھنا میں نے حرام کر دیا ہے ان پر نگاہیں نہ ڈالو ، حرام چیزوں سے آنکھیں نیچی کر لو ‘ ۔ اگر بالفرض نظر پڑ جائے تو بھی دوبارہ یا نظر بھر کر نہ دیکھو ۔ صحیح مسلم میں ہے { سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑ جانے کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اپنی نگاہ فوراً ہٹا لو } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2159) نیچی نگاہ کرنا یا ادھر ادھر دیکھنے لگ جانا اللہ کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا آیت کا مقصود ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { علی رضی اللہ عنہ نظر پر نظر نہ جماؤ ، اچانک جو پڑگئی وہ تو معاف ہے قصداً معاف نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2149،قال الشیخ الألبانی:حسن) { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا { راستوں پر بیٹھنے سے بچو } ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کام کاج کے لیے وہ تو ضروری ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { اچھا تو راستوں کا حق ادا کرتے رہو } ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ؟ فرمایا : { نیچی نگاہ رکھنا ، کسی کو ایذاء نہ دینا ، سلام کا جواب دینا ، اچھی باتوں کی تعلیم کرنا ، بری باتوں سے روکنا } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6229) { آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { چھ چیزوں کے تم ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوتا ہوں ، بات کرتے ہوئے جھوٹ نہ بولو ، امانت میں خیانت نہ کرو ، وعدہ خلافی نہ کرو ، نظر نیچی رکھو ، ہاتھوں کو ظلم سے بچائے رکھو ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو } } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:8018:ضعیف) صحیح بخاری میں ہے { جو شخص زبان اور شرمگاہ کو اللہ کے فرمان کے ماتحت رکھے ، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6474) عبیدہ کا قول ہے کہ جس چیز کا نتیجہ نافرمانی رب ہو ، وہ کبیرہ گناہ ہے چونکہ نگاہ پڑنے کے بعد دل میں فساد کھڑا ہوتا ہے ، اس لیے شرمگاہ کو بچانے کے لیے نظریں نیچی رکھنے کا فرمان ہوا ۔ نظر بھی ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔ پس زنا سے بچنا بھی ضروری ہے اور نگاہ نیچی رکھنا بھی ضروری ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرو مگر اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4017،قال الشیخ الألبانی:صحیح) محرمات کو نہ دیکھنے سے دل پاک ہوتا ہے اور دین صاف ہوتا ہے ۔ جو لوگ اپنی نگاہ حرام چیزوں پر نہیں ڈالتے ۔ اللہ ان کی آنکھوں میں نور بھر دیتا ہے ، اور ان کے دل بھی نورانی کر دیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جس کی نظر کسی عورت کے حسن و جمال پر پڑ جائے پھر وہ اپنی نگاہ ہٹالے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت اسے عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ اپنے دل میں پاتا ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:264/5:ضعیف) اس حدیث کی سندیں تو ضعیف ہیں مگر یہ رغبت دلانے کے بارے میں ہے ، اور ایسی احادیث میں سند کی اتنی زیادہ دیکھ بھال نہیں ہوتی ۔ طبرانی میں ہے کہ { یا تو تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے منہ سیدھے رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں بدل دے گا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:7840:ضعیف) «اَعَاذَنَا اللہُ مِنْ کُلِ ّ عَذَابِہِ» فرماتے ہیں ، { نظر ابلیسی تیروں میں سے ایک تیر ہے جو شخص اللہ کے خوف سے اپنی نگاہ روک رکھے ، اللہ اس کے دل میں ایسا نور ایمان پیدا کردیتا ہے کہ اسے مزہ آنے لگتا ہے } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:10363:ضعیف) لوگوں کا کوئی عمل اللہ سے پوشیدہ نہیں ہے وہ آنکھوں کی خیانت دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ابن آدم کے ذمے اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا گیا ہے جسے وہ لامحالہ پالے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، زبان کا زنا بولنا ہے ، کانوں کا زنا سننا ہے ۔، ہاتھوں کا زنا تھامنا ہے ، پیروں کا زنا چلنا ہے ، دل خواہش تمنا اور آرزو کرتا ہے ، پھر شرمگاہ تو سب کو سچا کر دیتی ہے یا سب کو جھوٹا بنا دیتی ہے } ۔ (صحیح بخاری:6243) اکثر سلف لڑکوں کو گھورا گھاری سے بھی منع کرتے تھے ۔ اکثر ائمہ صوفیہ نے اس بارے میں بہت کچھ سختی کی ہے ۔ اہل علم کی جماعت نے اس کو مطلق حرام کہا ہے اور بعض نے اسے کبیرہ گناہ فرمایا ہے ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے رودے ، گو اس میں سے آنسو صرف مکھی کے سر کے برابر ہی نکلا ہو } ۔ ۱؎ (ابو نعیم فی الحلیۃ:163/3:ضعیف)